ہم پاکستان کا 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ پاکستان ہمارا وطن، بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ مسلمانان برصغیر نے عظیم جدوجہد کے بعد ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور اس کی ترقی اور استحکام کے لیے خلوص دل اور ایمانداری سے کام کیا۔ قیام پاکستان کی تاریخ سے اپنی نئی نسل کو آگاہ کرنا ہماری اولین ذمہ داری تاکہ ہم بحیثیت مسلمان قوم انہیں اپنی شناخت دے سکیں اور وہ مستقبل میں اپنی ذمہ داریاں پراعتماد طریقے سے نباہ سکیں۔
آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ آزاد قومیں ہی دنیا میں کامیابی کی منازل طے کر پاتی ہیں۔ غلام قوموں کی تہذیب و تمدن یہاں تک کہ تاریخ اقدار اور روایات بھی مٹ جاتی ہیں۔ بقول شاعر
بندگی میں گھٹ کےرہ جاتی ہےاک جوئےکم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
غلامی عذاب کی ایک شکل ہے اللہ تعالی کسی قوم کو عذاب دینا چاہتا ہے تو اس پر کسی غیر قوم کو مسلط کر دیتا ہے جواس کی معیشت، معاشرت، مذہبی اقدار اور روایات کو تباہ و برباد کر ڈالتی ہےاس کے نتیجے میں وہ اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے۔
برصغیر کے عوام پر بھی یہ عذاب اس وقت مسلط ہوا جب آپس میں نااتفاقی، بے ایمانی، غفلت اور غداری جیسی برائیاں ان میں سرائیت کر گئیں غیر اقوام کو موقع مل گیا کہ وہ ان کے ملک پر قابض ہو جائیں چناچہ سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی انگریز قوم نے ہندوستان پرقبضہ کر لیا جو رقبے، آبادی اور دفاعی قوت غرض ہر لحاظ سے ایک طاقتور سلطنت تھا۔ مگر آپس کی دشمنیوں اور عیش پسندی کی بدولت اپنے سے کئی گناہ چھوٹی طاقت سے شکست کھا بیٹھا، انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان کی ریاستوں کو آپس میں لڑوا دیا غداروں کی بآسانی دستیابی نے ان کے کام کو اور آسان کر دیا۔
آپس کے اختلا فات اورجنگ و جدل نے برصغیر کی مرکزی حکومت کو کمزور کر دیا جس کے نتیجے میں سلطنت کئی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہ کمزور ریاستیں بیرونی طاقتوں کے لئے ترنوالا ثابت ہوئیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ انگریزوں نے پورے ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ انگریزوں نے انتہائی چالاکی اور مکاری سے نہ صرف ہندوستان پر قبضہ کرلیا بلکہ مقامی تہذیب و تمدن کو بری طرح مجروح کرکے اپنی تہذیب اور زبان کو اس طرح مسلط کیا کہ آزادی کے 75 سال گزر جانے کے باوجود ہم ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے۔
اس دور کے دوراندیش مسلمان رہنماؤں نے حالات کی نزاکت کو سمجھا اور اپنی قوم میں آزادی کی تحریک پیدا کی، نوجوانوں میں خودی اور آزادی کے جذبے کو ابھارا اور اپنی شناخت اور بقا کے لئے جدوجہد پر آمادہ کیا ان عظیم رہنماؤں میں علامہ اقبال، قائداعظم، سرسید احمد خان اور دیگر جید علماء اور رہنما شامل تھےجن کی محنتوں کے نتیجے میں مسلمانان ہند نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا، ایک کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر اکٹھے ہوکر منظم جدوجہد کی اور ایک اسلامی ریاست پاکستان کی بنیاد رکھی۔
پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا کہ مسلمان اپنی اقداروروایات، تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں جو کسی بھی طرح ہندوؤں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے کیونکہ ہندو تہذیب و تمدن، مذہبی اقدار اور روایات کے لحاظ سے مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں اور اکثریت میں ہونے کی وجہ سے کبھی بھی مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں کی ساتھ ان کے اختلافات دشمنی کی حد تک پہنچ چکے تھے لہذا مسلمانوں کی بقا کے لیے ایک الگ مسلم ریاست کا قیام ناگزیر تھا۔ بعد میں آنے والے حالات نے اس حقیقت کو ثابت کر دیا کہ ہندوؤں کے لئے مسلمانوں کا وجود ناقابل برداشت ہے۔
پاکستان کا واضح اور متعین مقصد حکومت الہیہ کا قیام تھا، جہاں دین اسلام کے زریں اصولوں کو نافذ کرکے اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جاسکے، اس بات کا اظہار بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بارہا اپنی تقاریر میں کیا اور یہ نعرہ کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ بھی اسی نظریے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں نے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا اپنا وقت، جان، مال اور عزت سب کچھ پاکستان کی خاطر قربان کر ڈالا بالآخر لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
پاکستان کے قیام پر مشکلات کا ایک مرحلہ طے ہو گیا مگر اگلا مرحلہ اسلامی حکومت کا قیام اور قوانین کا نفاذ ابھی باقی تھا، جس کی راہ میں اسلام دشمن عناصر رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ پاکستان اور اسلام کے ساتھ مخلص رہنماؤں کی کوششوں سے آئین اور قوانین مرتب کر دیئے گئے مگر ان کے نفاذ کا معاملہ تعطل کا شکار رہا۔ ملک دشمن عناصر اور مفاد پرست حکمران نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے، اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر انہوں نے ملک میں اسلام نافذ نہ ہونے دیا۔
پاکستان مملکت خداداد ہے اس کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب عوام میں آزادی کی لہر بیدار ہو ئی، اپنی شناخت اور بقا کا شعور پیدا ہوا تو وہ متحد ہوکر باطل نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اسلام کے جھنڈے تلے ایک قوم کی حیثیت سے جدوجہد کی اور باطل قوتوں کا سرنگوں کردیااور آخرکار ایک آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آج ہمارے وطن کو وہی حالات درپیش ہیں چاروں طرف سے ملک دشمن عناصر نے گھیر رکھا ہے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا نظام ملک پر مسلط کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری عام ہو رہی ہے امیر ہو یا غریب سب مہنگائی سے پریشان ہیں، زندگی کی اس دوڑ میں اخلاقیات زوال پذیر ہیں، بدعنوانی اور جرائم کی کثرت نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، ادارے اور دیگر شعبہ ہائے زندگی بدعنوانی کی بدولت زوال کا شکار ہیں اس پر مستزاد سیاسی جماعتیں ہیں جو اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں باہم دست و گریباں ہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مطالبات پوری کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے کوشاں ہیں، ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کرذاتی اقتدار کو مضبوط کرنے، اقتدار ملنے پر بھی عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے مخالفین کو نیچا دکھانے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش میں مصروف ہیں ان حالات میں ہمیں ایک بار پھر قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے مخلص اور دوراندیش رہنماؤں کی ضرورت ہے جو قوم کو بلند ترین مقاصد کے لئے قربانیاں دینے پر آمادہ کریں اور ملک و قوم کو موجودہ بحران سے نکال کر امن اور سلامتی کی راہ پر گامزن کر دیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے اندر وہی جذبہ آزادی اور وہی اتحاد اور اتفاق اور وہی ایمان اور یقین پیدا کرنا ہوگا جو قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں میں تھا ہمیں اپنے ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینی ہوگی اور حکمرانی کے لیے ایسے رہنماؤں کو منتخب کرنا ہوگا جن کا کردار بےداغ ہو، جو ایماندار ہوں اور قوم کے ساتھ مخلص ہو ں۔ کیونکہ ایماندار قیادت قومی ترقی کی ضامن ہے۔
ہمیں قائداعظم کی اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔ یہ کہنے کا کیا فائدہ کہ ہم سندھی، پٹھان یا پنجابی ہیں، بلکہ یہ کہنا کہ نہیں ہم سب مسلمان ہیں اور اسلام نے ہمیں یہی سکھایا ہے ۔ ہم جتنی زیادہ تکلیفیں اورمشکلات سہنا سیکھیں گے اتنی زیادہ پاکیزہ مخلص اور مضبوط قوم کے طور پر ابھریں گے جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔
پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم مسلم ریاست بنانے کے لئے ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی کیونکہ یہ ہمارا وطن ہے، ہمارا سائبان ہے اور اسی سے ہماری پہچان ہے۔ بقول شاعر
موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھناہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے