کچھ دن سے ایک پاکستانی فلم کا اشتہار نظر أ رہا ہے جس کا نام ہے “لندن نہیں جاؤں گا” فلم کا نام سن کر ایک خیال شدت سے ذہن میں أرہا ہے ہمارے کراچی میں ایک صاحب تھے جو کراچی کے مسائل پر أواز بن کر اٹھے تھے کراچی والوں کے مسائل پر انہوں نے أواز اٹھائی پہلے تو طلبہ تنظیم بنائی پھر وہاں سے عملی سیاست میں قدم رکھا کراچی والوں نے دل کھول کر ان کا ساتھ دیا محبت دی اور انہوں نے کراچی کو کیا دیا لکھتے ہوئے دل خون کے أنسو روتا ہے، لسانیت کے نام پر ہنگامے، ہڑتالیں، قتل و غارت گری احتجاج کے نام پر ہڑتالیں اور ان ہڑتالوں کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات ، جانی نقصان کا حساب الگ ہے 1988 سے حساب لگائیں تقریباً تین دہائیوں نے ایک شقی القلب شخص نفسیاتی ذہنی مریض کے ہاتھوں کے ہاتھوں ہر طرح کے نقصانات اٹھائے ہیں۔
کتنے نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کتنے لوگ گمشدہ ہو گئے کتنے ہی لوگ ہنگاموں ہڑتالوں کی وجہ سے فائرنگ کی زد میں أئے اور جان سے گئے۔ وہ صاحب جو جو مسائل لے کر اٹھے تھے وہ اج بھی کراچی میں جوں کے توں موجود ہیں ان کی اٹھائی ہوئی أواز پر لوگوں نے لبیک ہی اسی لئے کہا تھا کہ کراچی کی عوام اپنے مسائل کا حل چاہتی تھی۔ کراچی کے لئے تو وہ خود کچھ کر سکے نہ ان کی جماعت کے تحت بننے والے ایم این اے ایم پیز اور میئر ہی کچھ کر پائے، ہاں فائدہ ہوا تو ان ہی لوگوں کو جو ہر دور حکومت میں اپنے بینک اکاؤنٹ بڑھاتے ہی چلے گئےکبھی منسٹر بن کر تو کبھی لوٹے بن کر تو کبھی بکاؤ مال بن کر اور کراچی کی عوام کو کیا ملا صرف لارے تسلیاں اور سب ٹھیک ہوجائے گا کا لالی پاپ۔
کراچی کی بدقسمتی ہے کہ مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی سب کھا رہے ہیں کما رہے ہیں ان وزیروں کی اپنی اولادیں لندن اور امریکہ میں زیر تعلیم ہیں اور عام عوام کی اولادوں کو گورنمنٹ کی طرف سےاسکول تک میسر نہیں۔ ان لوگوں کا علاج باہر ممالک میں ہوتا ہے اور عوام کو گورنمنٹ ہسپتال میں ایک بستر تک نہیں ملتا۔ کتنی مائیں ہیں جو ہسپتال کے دروازوں پر بچوں کو جنم دے دیتی ہیں کہ اندر ہسپتال میں بیڈ موجود نہیں ہے۔
لکھوں تو کاغذ کم پڑ جائیں مگر یتیم شہر کے مسائل پورے نہیں لکھ پاؤں گی۔ گندگی کے ڈھیر، سیورج کاٹوٹا پھوٹا نظام، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، کے الیکٹرک کی من مانیاں، ٹرانسپورٹ کے نام پر چنگچی میں دھکے کھاتی خواتیں، تعلیم کے نام پر دھبے کی صورت سرکاری اسکول، نالوں میں تیرتی بچوں اور ماؤں کی لاشیں یہ سارے تحائف کراچی کی عوام کو دے کر وہ صاحب لندن شفٹ ہو گئے، جب کہ انہیں کہنا چاہیئے تھا “لندن نہیں جاؤں گا” مگر نہیں صاحب وہ کیا نیلسن منڈیلا تھے جو اپنی مجبور عوام کے لئے جیل کاٹتے وہ تو لندن چلے گئے اور اپنے پیچھے جو اپنی باقیات چھوڑ گئے وہ آج تک ہر موجودہ حکومت کے ساتھ کٹھ پتلی بن کر اپنے ذاتی اثاثے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں کراچی تباہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے ان کی بلا سے۔
اب وہ وقت ہے کہ کراچی کی عوام کو اس شہر کی حالت سدھارنے کے لئےکسی لندن والے کا آسرا کرنے کے بجائے ایسی قیادت کو چننا ہوگا جو کراچی کا بیٹا ہے 120 گز کے گھر میں رہتا ہے اس کی کوئی زمین جائیداد نہ یہاں ہے اور نہ بیرون ملک میں، اس کے اثاثے ہیں جو کچھ ہے عوام کے سامنے ہیں اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی یہ مرد مجاہد سندھ گورنمنٹ کے گلے میں ہڈی بن کر اٹکا رہتا ہے۔ کراچی کے لئے آواز اٹھاتا ہے اور اپنی عوام کے لئے بات منوا کر ہی مانتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی وہ شہر کراچی اختیارات کا رونا نہیں روئے گا بلکہ وہ کچھ کر کے دکھائے گا، بس اب کراچی کی عوام کو اس کا ساتھ دینا ہے اور ترازو پر مہر لگانی ہے۔