میکے اور ننھیال کی مشفق فضاء میں وہ تینوں بچیاں “گھر گھر” والے کھیل میں مگن تھیں، مائیں الگ سے محفل جمائے بیٹھی تھیں جب اچانک ہی ایک بچی کی زور زور سے رونے اور چیخنے کی آواز آئی۔ جائے وقوعہ پر جب مائیں پہنچیں تو بچی روتے ہوئے اور صدمے کی حالت میں ماں کو شکایت لگاتی جاتی تھی کہ یہ میرے بچے پر بیٹھ گئی تھی۔ بے باک سا یہ فقرہ تقریباً چار سالہ بچی کا ہے۔ گویا ممتا اور گھر داری عورت کی فطرت ہے جس کی چاہت سے بچیاں بھی مستثنیٰ نہیں۔ جیسے بچے آپس میں کشتی، کبڈی اور باہر کی دنیا میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ یہی ان کی فطرت ہے۔ اب اگر وہ فطرت کے آگے سرنڈر کرنے کی بجائے اور اپنے دائرہ کار کی حدود سے نکلتے ہوئے عورتوں کی نقالی یا تشبیہ اختیار کرتے ہیں تو غلط ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عورت کو اس کے دائرہ کار سے کیوں نکالے جانے پر اتنی محنت ہو رہی ہے۔ کیا گھردار عورت کی عظمت کا مقابلہ گھر سے باہر والے اجنبی مردوں کے ساتھ کام کرتی خاتون کا کرنا عقلمندی ہے؟ کیا گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی باشعور اور پڑھی لکھی عورت کا شعور گھٹاتی ہے، یا اس کی صلاحیتوں کو زنگ لگاتی ہے، جبکہ اس کو استثنائی صورت کے سوا رب العالمین نے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا ہوتا ہے۔ یوں اس کے پاس کھلے مواقع ہوتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں، علم اور شعور کو اتنی دیانتداری سے اگلی نسل میں منتقل کرے کہ نسل نو اس علم اور شعور کی روشنی سے معاشرے میں پھیلی جہالت، عصبیت اور ذہنی انتشار کو علم، اتحادو یگانگت و اخوت اور یکسوئی سے پر کر دے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی سمجھ بوجھ کو طاق میں رکھ کر اغیار اور چالاک دشمن کی ذہنی طرز پر سوچنا شروع کر دیا۔ ہماری سوچ کے دھارے پر جب دوسرے لوگ قابض ہوئے تو ہم گھریلو خواتین عدم اعتماد کا شکار ہو گئیں، ہم نے سمجھنا شروع کر دیا کہ جب تک ہم دوہری ذمہ داری ادا نہ کریں گی ہم معاشرے میں اہمیت حاصل نہ کر پائیں گی، ہمیں بدھو اور پھوہڑ سمجھا جائے گا۔ ہم نے خاندانی نظام کے استحکام کو خطرے میں ڈال کر جاب کرنے کو ترجیح دی۔ ہم نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے گھر میں رہ کر ان پر کڑی اور تربیتی نگاہ رکھنے کی بجائے ذمہ داریوں سے فرار میں عافیت جانی۔
اگرچہ اسلام نے عورت کو حق کمائی اور حق خرچ عطا کیا ہے مگر کفیل نہیں بنایا۔ مقام و مرتبہ بلند اس عورت کا نہیں بتایا جو کماتی ہو بلکہ اس عورت کا بتایا جو پرہیزگار ہو۔
ہم مثال کے طور پر حضرت خدیجہ کا نام لیتے ہیں جو کماتی تھیں مگر وہ ایک مضبوط کردار اور معاملہ فہم عورت بھی تھیں، یہ ہم بھول جاتے ہیں۔ ہم یہ پہلو بھی نمایاں نہیں کرتے کہ عرب کی اس مالدار اور رشیدہ خاتون نے اپنا تمام مال اللہ کے لئے وقف کر دیا۔ اپنے شوہر کے مشن میں ان کی دست راست بن گئیں، مال کے زعم میں انہوں نے شوہر کو دبانے کی بجائے معاشرے کی ان ستم ظریفیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے لگا دیا جو ان کے شوہر کو دبانے اور تحریک کا خاتمہ کرنے کے لئے جاری تھیں۔ کیا گھریلو خاتون بن کر ان کی حیثیت کم ہوئی! کیا بچوں کی تربیت کو انہوں نے گھٹیا ذمہ داری جانا، کیا حضرت فاطمہ کم وسائل رکھنے والی گھریلو خاتون ہونے کے باوجود عدم اعتماد کا شکار ہوئیں۔
یقیناً ہمیں اپنی سوچ کا زاویہ درست کرنے کی ضرورت ہے، غلط دھارے کے ساتھ بہنے کی بجائے دھارا موڑ دینے کی ہمت اور جرات پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم خواتین اپنا لوہا منوا سکیں۔ تا کہ دنیا میں خواہ نہ سہی مگر عقبیٰ میں ہماری شان میں قصیدے پڑھے جائیں، وہاں ہم سرخرو ٹھہریں۔ اللہ ہمیں اپنے دائرہ کار کی عظمت اور حکمت کا فہم عطا فرمائے۔ آمین۔