مون تیز تیز چلو بیٹا بارش کے آثار لگ رہے ہیں، دعا کرو ہم بارش سے پہلے گھر پہنچ جائیں ورنہ مشکل ہو جائے گی۔ زہرہ بیگم نے اپنے دس سالہ پوتے سے کہا؛ جی دادی مون نے دادی کے ساتھ تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔
زہرہ بیگم کراچی کےعلاقے ناگن چورنگی کے قریب اپنے تین بیٹے اور بہوؤں کے ساتھ رہتی ہیں تین ہی بیٹیاں ہیں جن کے فرض سے فارغ ہو چکی ہیں، سب سی بڑا بیٹا انجینئر بن کر دبئی شفٹ ہوگیا دوسرا بیٹا ڈاکٹر ہے اور وہ بھی باہر ملک میں جاب تلاش کرکے وہیں سیٹل ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ مون انکے سب سے چھوٹے بیٹے کا بیٹا ہے چھوٹے بیٹے کو کسی باہر ملک جانے کا شوق نہیں ہے وہ اپنے پاکستان میں ہی رہنا پسند کرتا ہے ایک گورنمنٹ ادارے میں جاب کرتا ہے۔
زہرہ بیگم روز شام کو چہل قدمی کرنے گھر کے قریبی پارک جاتیں تھیں اس دن مون انکا پوتا ٹیوشن سے جلدی واپس آگیا تھا تو وہ بھی دادی کے ساتھ پارک چلا آیا وہ دونوں تیز تیز قدم اٹھاتے گھر کے گیٹ تک پہنچے ہی تھے تیز بارش شروع ہوگئی زہرہ بیگم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ گھر پہنچ گئے، اندر جا کر مون دادی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا، بہو نے گرما گرم چائے اور پکوڑے تیار کر رکھے تھے سب کو بلا کر لاؤنج میں چائے سرو کی؛ دادی ایک بات پوچھوں مون نے پکوڑے کھاتے ہوئے دادی کو مخاطب کیا؛ ہاں بیٹا ضرور پوچھو! دادی بارش تو اتنی اچھی ہوتی ہے پھر آپ بارش ہونے سے ڈر کیوں رہیں تھیں ؟ زہرہ بیگم نے پوتے کے سوال کے جواب میں سرد آہ بھری اور بولیں بیٹا میں بارش سے نہیں بارش کے بعد ہونے والی تباہی سے ڈرتی ہوں، بارش تو اللہ کی رحمت ہے مگر میرے کراچی میں جو شہر کا برا حال مچا ہوا ہے اس سے ڈر لگتا ہے کہ خیریت سے گھر پہنچ جائیں، دادی ہمارا شہر اتنا گندا کیوں ہے مون نے دوسرا سوال کر دیا، اب کے جواب مون کی امی نے دیا مون بیٹا آپ کو اپنا گھر کیسا لگتا ہے امی ہمارا گھر تو صاف ستھرا ہے ہر چیز چمکتی ہوئی ہے اور اپنی جگہ پر بھی ہے تو بیٹا ایسا صاف ستھرا گھر خود ہی تو نہیں ہو گیا نہ ہم اسے صاف کرتے ہیں روزانہ جھاڑو پونچھا لگاتے ہیں صحن کو دھوتے ہیں واش رومز بھی دھوتے ہیں تب ہی تو گھر صاف رہتا ہے نہ اورآپ نے شہر کا پوچھا تو بیٹا اس شہر کراچی کا پرسان حال کوئی نہیں کوئی ادارہ ایمانداری سے اس کے بارے میں کوئی اقدامات نہیں اٹھاتا کوئی بھی موسم آئے یا جائے کراچی کا موسم ایک ہی رہتا ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اُبلتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ان سڑکوں پرسواری کے لئے خوار ہوتی عوام۔
تو امی ہم بھارت میں چل کر کیوں نہیں رہ لیتے میں کارٹونز اور گیمز میں دیکھتا رہتا ہوں انڈیا تو بہت صاف ستھرا نظر آتا ہے مون کے اس سوال پر زہرہ بیگم نے مسکرا کر اسے اپنے پاس بلایا اور بولیں بیٹا آپ کو معلوم ہے پہلے ہم انڈیا میں ہی رہتے تھے مگر جب آپ اور آپ کے ابو بھی اس دنیا میں نہیں آئے تھے میں اپنے امی ابو کے ساتھ دہلی میں رہتی تھی۔
کیا واقعی دادی آپ اتنی بڑی ہیں، مون کے معصومانہ سوال پر ساس بہو دونوں ہنس پڑیں، ہاں بیٹا میں نے پاکستان بنتے ہوئے دیکھا ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت ہمارے عظیم لیڈر قائد اعظم نے کتنی جدوجہد اور اس وقت کی عوام نے کتنی قربانیاں دیں تھیں اس آزاد مملکت کو حاصل کرنے کے لئے۔
میرے ابو بھی مسلم لیگ کے کارکن تھے اور وہ اپنا آرام بھول کر دن رات مسلسل کام میں لگے رہتے تھے میری امی کہتی بھی تھیں کہ آپ تھوڑا آرام کر لیا کریں بیمار ہو جائیں گے مگر وہ ہمیشہ ایک ہی جواب دیتے جب میرا قائد آرام نہیں کرتا تو میں تو ایک عام کارکن ہوں اب تو آرام اپنے آزاد وطن میں جا کرہی کریں گے اور امی لاجواب ہو جاتیں۔ مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد آخر وہ دن بھی آگیا جب ہمیں اپنا پیارا وطن پاکستان ملا یعنی 14 اگست 1947 جب ہم نے اس سر زمین پر قدم رکھا تو میرے ابو ٹرین سے اترتے ہے سجدے میں گر گئے تھے آنسوؤں سے بھری آنکھیں اور ہونٹوں پر اللہ کی شکر گزاری کے کلمات، پاکستان آنے کے بعد قائد اعظم بھی بیمار رہنے لگے تھے اور ایک ڈیڑھ سال بعد ہی ہم اس عظیم لیڈر کو کھو بیٹھے قائد اعظم انتقال کر گئے جس وطن کو بنانے کے لئے انہوں نے دن دیکھا نہ رات اس وطن کا اور خاص طور پر کراچی کا برا حال دیکھ کر قائد اعظم کی روح تک تڑپ جاتی ہوگی۔ زہرہ بیگم جذباتی ہوگئیں، دادی آپ رو رہی ہیں مون حیران سا ہوکر بولا نہیں بیٹا بس تم نے انڈیا کی بات کی تو اس لئے غصہ آگیا اور بہت کچھ یاد آگیا تمہارے تایا ابو بھی اسی طرح یہاں سے جانے کی باتیں کرتے کرتے آخر دور دیس جا کر بس گئے اسی طرح تمہارے چاچو بھی کراچی سے جانے کے لئے کوشش میں لگے ہوئے ہیں، میرے بچے اگر جسم میں کوئی تکلیف ہو تو اس کی دوا کی جاتی ہے نہ کہ جسم کے اس حصے کو کاٹ کر پھینک دیا جائے اسی طرح اپنے وطن اپنے شہر سے کوئی شکایت کوئی تکلیف ہے تو ان مسائل کا حل نکالنا چاہئے نہ کہ اس کی برائیاں کرکے پردیس جا کر بس جاؤ میں اپنے دو بیٹوں کو یہ بات نہیں سمجھا سکی مگر تمہارے ابو کو میری بات سمجھ آگئی اور وہ اپنے وطن اپنے شہر میں خوش ہیں۔
دادی آپ نے ابھی 14 اگست کا ذکر کیا تھا، دادی 14 اگست تو آنے والا ہے ہم جشن آزادی منائیں گے نہ ؟ ہاں بیٹا ضرور منائیں گے مگر ہمارے سیاستدانوں ہمارے نام نہاد لیڈروں کو یہ بات سوچنی ہو گی جو حال انہوں نے وطن عزیز اور خاص طور پر کراچی کا کیا ہے کیا وہ جشن آزادی منانے کے اہل ہیں؟ ۔