ہر سال چودہ اگست آتا ہے اور فکر کے در وا کرتا ہے لیکن ایک قلیل تعداد کے سوا سب جشن مناتے ہیں۔ جشن کس لئے مناتے ہیں، اس بارے میں وہ خود نہیں جانتے کہ وہ کس کے طریقے کو فروغ دے رہے ہیں۔ کیا یوم آزادی منانے کے اس طریقے کو اس طریقے سے کچھ بھی نسبت ہے جو فاتح مکہ کا فتح کی خوشی منانے کا طریقہ تھا۔ کیا قربانیوں کی وہ المناک داستانیں بھی ہمیں یوں جشن منانے سے نہ روک سکیں جنہیں سنا جائے یا پڑھا جائے تو جسم پر لرزہ اور دماغ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ کیا باپ کی خون پسینے کی کمائی کو اجاڑا جا رہا ہو تو حساس انسان تکلیف محسوس نہیں کرتا ؟ میں کیوں نہ روؤں! کیوں نہ چلاؤں ؟ جبکہ میں دیکھتی ہوں کہ میرے آباء کے خون، مال ، وقت کھپا کر اور لٹا کر وجود میں آنے والے ملک میں کیا کھلواڑ جاری ہے۔ میں بہنوں کی ان دلدوز صداؤں کو چشم تصور میں سنتے ہوئے بھی کیسے نام نہاد جشن منا سکتی ہوں۔ جشن کو لا ابالی کلچر کہہ کر ضمیر کو مطمئن کرنا چاہوں تو کشمیری مسلمانوں کی غیرت مسلم کو جھنجھوڑتے ہوئی دلدوز صدائیں سوال کناں ہو جاتی ہیں کہ ” تم پاکستانی شہ رگ پر رکھے بھارتی پاؤں کے دباؤ کو محسوس نہیں کرتے؟”۔ بتائیے میں قلب و ذہن کی اس کشمکش سے کیسے نکلوں !
میرے ملک کی معیشت کی منصوبہ بندی غیر مسلم کرے۔ میرے ملک کی اشرافیہ سے لے کر ریڑھی بان تک روشن مستقبل کی تلاش میں “آکسفورڈ و کیمبرج” کے نصاب میں رنگا جانا پسند کر رہا ہو۔ میرا عدالتی نظام اتنا سیکولر ہو کہ یہاں توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم اور نرمی کی بابت بل پیش کیے جارہے ہوں تو کبھی ممتاز قادری کو انصاف دلانے میں نا کام ہو جائے۔ پھر میں کیسے کہوں کہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے اور یہاں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، حاکمیت اللہ، رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور کتاب و سنت کی ہے!
میں آزاد جسم کی قید اور تشنہ روح کو کیسے مطمئن کروں جو سودی معیشت سے پلتے جسم کے ساتھ کوئی مطابقت ہی نہیں رکھ پا رہی! ہائے۔ میں عافیہ “ملت کی بیٹی” کی ننگ وطن و ننگ دین حکمرانوں کی بے غیرتی اور بے حسی کے باعث جاری بہیمانہ قید کے باوجود خود کو کیسے آزاد سمجھوں ! آخر میں ظلم کو اپنے گھر آنے اور اپنے ساتھ دیکھنے سے پہلے آزادی کے شادیانے کیسے بجاؤں! میں طاغوت کی بندگی کرنے والوں کی حکمرانی میں خود کو آزاد کیسے سمجھوں! اگر آپ خود کو آزاد سمجھتے ہیں تو میرے اشکالات کا جواب تو دے دیجئے۔
آپ کے خیال میں وہ بچے، بوڑھے اور جوان روز قیامت آپ کا گریبان نہ پکڑیں گے جو انگریز اور ہندو راج سے چھٹکارا پا کر اسلامی نظام کا غلبہ چاہتے تھے! کیا ہندو مہاسبھا، شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کے غلبے سے نجات پا کر پاکستان بنانے والے عالم برزخ سے پاکستان میں مقبول۔ انڈین چینلز، موویز، کارٹونز اور انڈین لب و لہجے، انداز، الفاظ۔ اور رائج لباس، جیولری، کھانے، مصالحہ جات دیکھ لیں تو اپنی قربانیوں اور کوششوں کو بے نتیجہ بلکہ ان قربانیوں سے بے نیاز روبوٹک مسلمانوں کو دیکھ کر روز حشر آپ سے اپنے خون کا حساب نہ مانگیں گے۔ وہ مسلمان جو مسجدوں میں بھی جاتے ہیں، تہجد کے وقت گریہ زاری کر کے ملت کو کفار کے شکنجے سے نکالنے کی فریادیں بھی کرتے ہیں۔ اور طاغوت کی بندگی بھی کرتے ہیں!
روح کی کیا بات کرنی میرا تو جسم بھی پاکستانی نہیں، محکوم ہے۔ جب اس جسم میں خوراک انگریزوں کی جائے ،جسم کی آرائش ہندو سے تشبیہہ دے رہا ہو تو کو نسا جسم آزاد ہے !
ہمیں اس بات یوم آزادی کو منفرد اندازِ میں منانا ہو گا۔ آزادی کا شعور بیدار کرنا ہو گا، آزادی کی تڑپ اور طلب پیدا کرنی ہو گی۔ ہمیں یہ شعور بیدار کرنا ہو گا کہ اقتدار میں اجانا آزادی نہیں بلکہ خدا کی حاکمیت کے آگے جھک جانے والا اور ہر سپر پاور اور طاغوت کے آگے ڈٹ جانے والا آزاد ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر