قتلِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت اسلامی تاریخ کا وہ باب ہے جو رہتی دنیا تک اہل حق کے لیے مشعل راہ رہے گا حق کی راہ میں اپنی جان و مال لٹا دینا اور باطل کے آگے کبھی سرنگوں نہ ہونا اہل ایمان کا شیوہ رہا ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کی قربانی دینا تو قبول کر لیا مگر حاکم وقت کے باطل نظریات کو تسلیم نہ کیا۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ نے اپنے رفقاء کے مشورے پر اپنے بیٹےیزید کو ولی عہد نامزد کر دیا اس کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں مگر یہ عمل اسلامی مزاج کے سراسر خلاف تھا اور اس کی وجہ سے آگے چل کر اسلامی نظام حکومت میں ولی عہدی کی روایت جاری ہونے کا قوی امکان تھا،جو قیصروکسریٰ میں رائج تھی اسلام نے رنگ و نسل اور خاندانوں کی حکمرانی اور ان کی اجاداری کا خاتمہ کر ڈالا تھا اس کی جگہ اسلام میں شورائی یا مشاورتی نظام کے ذریعہ خلیفہ کا تقرر کیا جاتا ہے اور مسلمان اپنے درمیان سب سے زیادہ متقی اور اہل شخص کو خلافت کے لئے منتخب کرتے ہیں. یزید کی ولی عہدی سے خاندانی بادشاہت اور وراثتی سیاست کا آغاز ہونے چلا تھا عام مسلمانوں نے اسے ناپسند کیا مگر یزید کے وفادار اور حاشیہ برداروں نے اس کی خلافت کے لیے کوششوں کا آغاز کردیا اور اس مقصد کے لیے عوام سے بیعت لینا شروع کر دی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں باغیوں نے ملک میں بہت فسادبرپا کیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جنگ و جدل کی نذر ہوگئی حضرت امیر معاویہ کے دور حکومت میں امن و امان کو فروغ ملا مگر یزید کی ولی عہدی نے ایک بار پھر ایسی صورتحال پیدا کردی تھی جس سے فساد کا اندیشہ تھا کیونکہ لوگ یہ بات سمجھتے تھے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ اہل ہیں چناچہ کوفہ کے لوگوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھےکہ وہ یزید کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے اور امام حسینؓ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں انہوں نے حضرت امام حسینؓ کو کوفہ آنے کی دعوت دی آپؓ نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجا جہاں چالیس ہزار لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تو حضرت مسلم بن عقیل نے حضرت امام حسینؓ کو پیغام بھیجا کہ صورتحال اطمینان بخش ہے آپ کوفہ آجائیں۔ جس کے نتیجے میں آپؓ کوفہ روانہ ہوگئے اس وقت کوفہ کے حاکم حضرت نعمان بن بشیر تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ حضرت مسلم بن عقیل حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے عوام سے بیعت لے رہے ہیں تو انہوں نے چشم پوشی اختیار کی یزید کو اس کی خبر ملی تو اس نے انہیں معزول کرکے عبیداللہ بن زیاد کو گورنر بنا دیا جو ایک سخت گیرحکمران تھا، اس نے حضرت مسلم بن عقیل کو گرفتار کرکے قتل کرادیا کوفہ کے لوگ ابن زیاد کی سختی سے ڈر گئے اور اپنے عہد سے پھر گئے اس واقعے کی خبر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اس وقت ملی جب وہ کوفہ کے لیے روانہ ہو چکے تھے آپؓ کو سخت صدمہ پہنچا آپؓ نے اپنے رفقاء سے مشورہ کر کے یہ طے کرلیا کہ کوفہ پہنچ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے مگر کربلا کے مقام پر پہنچ کر ابن زیاد کی فوج نے آپ کا راستہ روک لیا اور یزید کی بیعت پر اصرار کیا۔ حضرت امام حسینؓ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور ان کے سامنے چند شرائط رکھیں کہ یا تو انھیں واپس جانے دیا جائے یا یزید کے پاس لے کر جایا جائے، مگر ابن زیاد کی فوج نے زبردستی آپ سے بیعت لینے کی کوشش کی اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کو ایک ایک کرکے شہید کردیا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فسادیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخرکار جام شہادت نوش کیا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ یہ جانتے تھے کہ یزید کی ولی عہد کے طور پر نامزدگی ایک بڑی خرابی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور اس کی وجہ سے خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کا دروازہ کھل جائے گا اس خرابی کو روکنے کے لیے آپؓ اور آپؓ کے ساتھیوں نے بھرپور کوشش کی یہاں تک کہ اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہ کی اس موقع پر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے والے دشمن عناصر نے فساد برپا کیا اور وہاں مذاکرات کی بھی نوبت نہ آنے دی۔
اسوہ شبیریؓ ہر دور میں مسلمانوں کے لیے مثال ہے کہ اسلام کے غلبے کی خاطر اپنی جدوجہد جاری رکھیں کسی رنگ و نسل یا خاندان کی حکمرانی کے بجائے اہل ترین اور خداترس حکمرانوں کا انتخاب کریں جو خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ کر سکیں۔ دین اسلام خاندانی بادشاہت اور وراثتی حکمرانی کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے قرآن پاک میں حکم ربّانی ہے کہ “امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو۔”
یزید کی خلافت سے مسلمانوں میں وراثتی حکمرانی کی ابتدا ہوئی جو اُمت مسلمہ کے انتشار کا سبب بن گئی آج دنیا میں کئی مسلم ممالک ہیں مگر کثیر تعداد ہونے کے باوجود ان کے درمیان اتحاد اور اتفاق ناپید ہے جس کی وجہ سے مسلمان بے شمار مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حل نہیں ہو سکے ۔
وطن عزیز میں بھی اس وقت یہی صورتحال ہے سیاسی جماعتیں تو بہت سی ہیں مگر ہر ایک کا مطمع نظر قومی مفاد کی بجائے اپنے خاندان کی حکمرانی اور ذاتی مفاد ہی دکھائی دیتا ہے ان حالات میں اسوہ شبیری سے یہ درس ملتا ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھتے ہوئے دین کے راستے پر چلیں اور دین کے خلاف چلنے والوں کے خلاف جہاد کریں، اپنا کردار اتنا بلند کر لیں کہ دوست اور دشمن سب کے لیے مثال بن جائیں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جرات، ہمت اور شجاعت کے علمبردار بنے جب لوگ یزید اور اس کے وفاداروں کی فوج سے ڈر گئے، آپؓ دین کا علم لے کر اٹھے ایک عظیم قربانی دے کر دنیا کو بتادیا کہ دین کے نفاذ اور سربلندی کے لئے جان، مال اور عزت سب قربان کر دینا ہی ایک مومن کی متاع حیات ہے اس کےبغیر انسان آخرت کی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ دنیا میں اسلام ایسے ہی باکردار اور باہمت مجاھدین کی بدولت پھیلا جنہوں نے اپنے ایمان، اخلاق، جرات اور ہمت سے کام لےکر حق کا آوازہ بلند کیا۔