دوہرے رویّے معاشرے میں بڑھتی ہوئی چینی و بے سکونی کی اہم وجہ ہیں، جس کو جتنا نظر انداز کیا جائے گا، خاندانوں کا استحکام اتنا ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اگر ہم اپنے دوہرے کردار کو درست سمت دینے کے لئے اپنے ذہن آمادہ نہ کر پائیں گے تو اس کا مطلب ہے ہم نسل در نسل ان رویوں کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں، یہ سوچے بنا کہ ان رویوں کی پرورش و پرداخت جرم ہے بلکہ گناہ ہے۔ اور افسوس کہ یہ وہ گناہ ہے جس کا بار نیک وصالح اولاد کے خواہشمند شعوری اور لا شعوری طور پر اپنی اولادوں میں منتقل کر رہے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ دہرے رویّے کیا ہیں، یہ معاشرے کے لئے کیسے ضرر رساں ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے، اس کی عام، واضح اور آسانی سے سمجھنے والی مثال عائلی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے، جب شوہر اور سسرال نئی آنے والی بہو سے گھریلو مسائل وکشیدگیوں کو پردہ اخفاء میں رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، یہ خواہش بجا ہے اس وقت۔ جب آپ بھی بہو کے گرد عرصہ حیات تنگ نہیں کرتے، معمولی باتوں میں مداخلت کر کے پریشان نہیں کرتے، ہر وقت بے جا تنقید نہیں کرتے، اس کی نقل وحرکت پر نگاہ تشنیع رہ کر اس کو زندگی سے بےزار نہیں کرتے، لیکن اگر آپ مندرجہ بالا رویّے کو ہی اپنائے ہوئے ہیں اور اس سے کنارہ کش ہونے ہونے کے لئے بھی تیار نہیں، اور پھر اپنے گھر کے مسائل باہر ڈسکس ہونے کو بھی ہتک عزت کا مسئلہ بناتے ہیں۔ اظہار بے بسی کو بھی جھگڑے کی زد میں لے آتے ہیں تو یہی اصل میں رویوں کا تضاد ہے، اسی کو دوہرا معیار کہتے ہیں۔
سردست! یہ ان گھرانوں کی بات ہو رہی ہے جہاں بہو محبت، ایثار، احسان، درگزر کی صفات پر عمل پیرا ہوتی ہے، جو گھر کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے جان کھپا دیتی ہے، جو فلاح خاندان کے لئے مختلف حربے اختیار کرتی ہے اور استحکام خاندان کے لئے قربانیوں کے بے مثال ریکارڈ قائم کرتی ہے۔ لیکن گھر میں ماحول کو کشیدہ بنائے رکھنے والے کردار جب گھر سے باہر خوش اخلاقی کا لبادہ اوڑھے نکلتے ہیں تو خدا کی قسم ، آپ کی بہو اس وقت شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوتی ہے۔ اور اگر آپ کا ذہنی مرض اس حد تک پہنچا ہوا ہے کہ ایک انسان کو اذیت میں دیکھ کر قلبی سکون محسوس کرتے ہیں تو خدا سے قساوت قلبی سے نجات اور نرم دل عطا کرنے کی دعا آپ کو دوبارہ فلاح کی طرف لے جا سکتی ہے۔
یاد رکھئے! ہر انسان خیر اور شر پر قدرت رکھتا ہے، خدارا خیر کے پتلوں میں برائی کے لئے مت اکساہٹ پیدا کریں، یقین رکھئے! نیکی کو کمزوری خیال کر کے برائی کا سک بٹھانے کی کوشش جھاگ سے زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ لہذا اپنا اپنا احتساب کیجئے، اپنے پر اتنے گناہوں کا بوجھ نہ لادیں جو روز حشر آپ کو بے بس کر دے، سب سے اہم بات یہ کہ مسلسل کی جانے والی معمولی برائیاں بھی گناہ کبیرہ کا روپ دھار لیتی ہیں،ان سے بچئے اور استحکام و فلاح خاندان کے لئے کمر کس لیجئے۔