کربلا کا حسین کون ! آپ فوراً جواب دیں گے۔ وہ جو نواسہ رسول تھا۔ وہ جو ابن علی تھا۔ گوشہِ رسول کا گوشہ تھا۔ وہ جو وقت کا ابراہیم تھا جس نے آتش یزید میں کودنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جو سیرت و کردار اور معاملہ فہمی کی بنیاد پر وقت کا امام بننے کا حقدار تھا۔ وہ، جس کے بھائی حسن نے اُمت کو اختلاف و انتشار سے بچانے کے لئے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ حسین نے مگر شورائی نظام کی بے حرمتی گوارا نہ کی، وراثتی خلافت کا قائل نہ ہوا وہ۔ ایک غلط رواج اور ملوکیت جو نظام خلافت کی دھجیاں بکھیر کر اپنے پیر مضبوط کر چکی تھی، امام حسین رض نے اس نظام غلط کو ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔
یاد رہے، امام کی بغاوت خلیفہ وقت کے خلاف نہ تھی اور نہ ہی خلافت کے حصول کے لئے آپ میدان میں اترے۔ آپ نے خلافت یزید کو ماننے سے اس لئے انکار کیا کہ آغاز میں ہی اس قبیح رسم اور ذہنیت کا خاتمہ کر دیا جائے کہ نا خلف بھی جانشین بن سکتا ہے، یا مسلمانوں کے مشورے کے بغیر بھی خلافت کا نظام چل سکتا ہے۔ گویا امام کا بیعت سے انکار نظام خلافت کے تحفظ کی خاطر تھا، شورائیت کے بچاؤ کے لئے تھا، ملوکیت کے خلاف جہاد تھا آپ کا قدم اور سب سے بڑھ کر ظالم وجابر حکمران کی اطاعت سے انکار تھا۔
امام کی معاملہ فہم اور دور اندیش نگاہوں نے ان خرابیوں کا نہ صرف ادراک کر لیا تھا بلکہ یہ بھی سمجھ لیا تھا کہ اگر اس وقت اس نظام باطل اور موروثی حکمران کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی اور اس کی بیعت کر لی گئی تو ملوکیت سے جنم لینے والی خرابیوں کا سدباب آئندہ نسل کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ لہٰذا امام نے ظالم حکمران کے خلاف میدان میں آنے کا فیصلہ کر لیا جسے تاریخ کربلا کے نام سے جانتی ہے۔ کربلا ایک ریتلا میدان تھا جہاں امام کو روک لیا گیا اور شہید کر دیا گیا۔ شہادت کے بعد آپ کی بہن زینب نے دربار یزید میں بھی کلمہ حق کہا اور یزیدیت سے چنداں خوفزدہ نہ ہوئیں۔
آج پھر جب کے صالح قیادت کا فقدان ہو چکا، اقتدار کے بھوکے، اقتدار کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں اور صالح لوگوں کو تبرک کے طور سیاست کے میدان میں قبول کر لیا گیا ہے اور ان کے رفاہی خدمات کو جی بھر کر سراہا جاتا ہے مگر امامت کے منصب کے لئے انہیں نہیں چنا جاتا۔ بے شک حالات واقعات کے تفاوت سے۔ بحثیت قوم، امانت کی منتقلی کے معاملے میں ہم اسی بددیانتی کے مرتکب ہیں جس کا ارتکاب کوفہ والوں نے کیا۔ ہم کوفہ والوں ہی کی طرح صالح لیڈر کی مظلومیت پر رونے کی کمال اداکاری بھی کرتے ہیں،ہم سودی نظام کو بھی برا کہتے ہیں، حدوداللہ کے نفاذ کے بھی خواہشمند ہیں، عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ کی چستی بھی ہم چاہتے ہیں لیکن یزید کو تختہ اقتدار تک پہنچانے سے بھی ہم باز نہیں آتے۔ برا نہ مانئے، ہم یزیدی فکر کا چلتا پھرتا اشتہار ہیں، ہم حسین کی للکار کا جواب للکار سے نہیں،کربلا بپا کر کے دینے کے قائل ہیں، ہم میں حسین کے قلیل گروہ کا حصہ بن کر لشکر یزید کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں، بلکہ ہم وہ منافق ہیں جو نشاندہی کر کے حسینیوں کو ظالم کا تختہ مشق بنوا دینے کو دانشمندی سمجھتے ہیں۔
یقیناً، یزیدیت کو شکست دینے کے لئے حسینیوں کا ماتم چنداں سود مند نہیں بلکہ حسین کے لشکر میں شامل ہونے کی ضرورت ہے مگر حسین کے لشکر میں شامل ہونے سے پہلے اطمینان سے فیصلہ کر لیجئے کہ آج کربلا کا حسین کون ہے۔
ہمیں “72” کے فلسفے اور منطق کو سمجھنے اور زندہ کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں حسین کے پیروکار لیڈر کی نہ صرف بیعت کی بلکہ اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ بے شک حسین کا قتل یزید کی موت ہے اور کربلا کے بعد اسلام کو سر بلندی اور غلبہ حاصل ہوتا ہے مگر اب کے ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ہم میدان سیاست میں حسین کے حامیوں کو اپنے ووٹ سے قتل نہ کریں گے اور اسلامی نظام و فلسفے کو اجاگر کرنے کے لئے میدان سیاست کو حسینیوں کا کربلا نہیں بننے دیں گے کیونکہ اب کے یزیدیت کا مقابلہ ہم ووٹ کی طاقت سے کرنے کا مصمم ارادہ کرچکے چکے ہیں۔
بقول شاعر،
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔