یکم محرم کو اسلامی سال کا آغاز۔ زندگی کے تسلسل کی نوید۔ مہلت عمل بڑھ جانے کی نوید تو ہے ہی لیکن ایک عظیم شخصیت کی شہادت کا دن بھی ہے، شہادتیں یوں تو کئی ہوتی ہیں اور بہت سی بامقصد اور بلند نصب العین کی تکمیل کی خاطر بھی ہوتی ہیں تا ہم 22 لاکھ مربع میل پر حاکم خلیفہ کی شہادت ایک بڑا المیہ تھا اور ہے۔ یکم محرم کا دن ایک عظیم لیڈر سے محرومی اور امت کو پہنچے ایک صدمے کی یاد تو دلاتا ہی ہے مگر نایاب سے مفقود ہوتی لیڈر شپ کو فلسفہ و نفسیات کے کئی اہم پہلوؤں سے بھی روشناس کروا دیتا ہے۔
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہی غلاموں پر اسرار شہنشاہی
کافروں کے لئے سخت اور مومنوں کے لئے نرمی کی عملی تفسیر تھے یہ لیڈر اور خلافت کی ذمہ داریوں نے جوشیلے پن کو اعتدال کی چھلنی سے گزار کر کئی تاریخی فیصلے کروائے، خواہ بیت المقدس کا معاملہ ہو یا ذمیوں کے حقوق کا ہو۔ وہ عمر جس کی تلوار دشمن کو دوسرا موقع دینے کی روادار نظر نہ آتی اور لوگ ان کے تندوتیز مزاج سے خائف سے بھی تھے، خلافت کا بوجھ اٹھاتے ہی اتنا حساس ہو گیا کہ مدینے کی ایک عام عورت کو بھی راہ چلتے عمر کا راستہ روک کر مؤاخذہ کرنے میں عمر کے مزاج کی سختی کا کوئی خوف نہ رہا۔
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
عمر متقی تھا، عمر عوام کے آگے جواب دہ تھا، زمین پر استراحت کر لینے والے عمر کا رعب وقت کی سپر پاورز کو ذہنی طور پر ہی ہرا چکا تھا، آج اگر یہودی لابی ایک مشن کے تحت میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کر کے ذہنوں پر قبضہ کیے ہوئے ہے تو عمر کا میڈیا عمر کا سفیر “قعقاع” تھا جو کسری کے درباریوں کو چند لمحات کی ملاقات میں ذہنی جنگ ہرا دینے پر قادر تھا، عمر کا میڈیا کسری کے ایوان کے وہ درباری تھے جو خوف وہراس پھیلا کر عمر کی راہیں ہموار کر دیتے تھے، کبھی عمر کا میڈیا جنگ میں شکست کھا جانے والے وہ بھگوڑے تھے جو نئے بھیجے گئے لشکر کے شرکاء کی حیثیت میں لشکر میں بد دلی پھیلا کر عمر کے لشکر کی قلیل فوج کو فتح کے جھنڈے گاڑنے میں سہولت دے دیا کرتے تھے۔
حکمران کا رعب و جلال اسلام کے غلبے کی راہ ہموار کر دیا کرتا ہے، عمر نے یہ بھی ثابت کیا کہ حکمران کو مؤاخذے و محاسبے کا احساس سیدھا رکھا کرتا ہے۔ بے شک عمر کو آئیڈیل لیڈر ماننے والا آئی ایم ایف کا غلام نہیں ہوا کرتا، وہ کسی بھی ملکی یا بین الاقوامی مسئلے پر رائے دینے میں نڈر بیان دیتا ہے، وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کرتا۔ اپنے محدود افراد اور سامان جنگ کا خیال اسے مضبوط فیصلے لینے میں دباؤ کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ اس نے صرف اللہ کی غلامی کا قلاوہ پہنا ہوتا ہے اس لئے اسے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے صرف اس کی رضا یا ناراضگی کا خوف ہوتا ہے۔
بے شک ایک آقا کا غلام ایک حکمران مضبوط اور نڈر فیصلے لیا کرتا ہے اور اقتدار سے بے دخلی کے خوف سے بے نیاز ہوا کرتا ہے۔ جبکہ مختلف آقاؤں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے حکمران خوف کی سولی پر ہی لٹکے رہتے ہیں اور ملک و ملت کے لئے عظیم مسائل پیدا کرتے چلے جاتے پیں۔ پھر قانون الٰہی کے تحت مختلف گروہوں کو اقتدار دینے والا ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے دفع کرتا رہتا ہے، لہٰذا بندوں کی غلامی کرنے والے اقتدار اور کرسی کی جنگ میں فٹ بال بنے رہتے ہیں جن کو مخالف آقا کی ٹھوکر سے فریق مخالف کے گول کر لینے کا ڈر کوئی بھی مثبت کردار نبھانے سے محروم رکھتا ہے اور پینلٹیاں بھگتتے بھگتتے یا تو اقتدار کا میچ ہار جاتے ہیں یا آقا کی ٹھوکر کھا کر گول کرنے کی خواہش انہیں بندوں کے قدموں میں روندتی رہتی ہے۔
لہٰذا وہ قائد چنیں اور اس قیادت کی راہیں ہموار کرنے والے بنیں جن کا اقتدار بندوں کے خوف سے بے پروا ہو کر سر بلندی دین کے لئے کوشاں رہتا ہے اور اللہ کی حکمرانی کو غالب کرنے میں مصروف بھی۔ انتخاب آپ کا ہے اللہ کے بندے کو حکمران مان لیں یا بندوں کے بندے کو۔