اسلامی سال نو کا آغاز انتہائی عظیم قربانیوں کاپیامبر ہے، دیگرمذاہب کے سال نو پر رقص وسرور کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، شراب کے جام چھلکائے جاتے ہیں، نوجوانوں کوشباب میں مدہوش کیاجاتا ہے، موسیقی کے سراورتال پرخواتین کے تھرکتے ہوئے جسموں کی نمائش کی جاتی ہے۔ دنیاکا ایک بڑاطبقہ نئے سال کے جشن میں ناچ، گانے، شراب و شباب، فحاشی، عریانی اور جنسیت میں ڈوب جاتاہے، شیطانیت اپنے عروج کے نقطہ انتہاپرہوتی ہے، عورتوں اور مردوں کااختلاط ہوتاہے۔ جشن کایہ طریقہ یہودونصاریٰ کاتوہوسکتاہے مگر اہل اسلام کا ہرگز نہیں۔ کیونکہ اسلام تو اختتامی سال کے آخری اور نئے سال کے پہلے ہی دن سے قربانی وایثار کادرس دیتا ہے۔ ہر نئے اسلامی سال کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے عظیم واقعہ کی یاد دلا کر اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر تنگی و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے، اہل اسلام پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے جائیں، ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے تو ایسے کڑے وقت میں وہ کفر کے ساتھ رواداری والا رویہ اپناتے ہوئے اپنے عقائد ونظریات میں لچک ہرگز پیدا نہ کریں، بلکہ اپنے دین وایمان کی حفاظت میں اپنا سب کچھ لٹانا پڑے تو لٹا دیں ،لیکن اپنی استقامت میں لغزش پیدا نہ ہونے دیں۔ اہل اسلام مغربی تہذہب کے دلدادہ نہیں بلکہ پروردہ آغوش غیرت ہوتے ہیں، عصمت فروش نہیں بلکہ عفت وعصمت کے محافظ ہوتے ہیں، تہذیب وتمدن کے نام پرانسانیت کی دھجیاں نہیں اڑاتے بلکہ اخلاق کی اعلیٰ قدروں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
خالق کائنات مالک ارض و سماء اللہ عزوجل نے جب سے زمین وآسمان کو پیدا فرمایا ہے اس وقت سے کتاب اللہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ محرم الحرام بھی ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اور اسی مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی نئے اسلامی سال (سن ہجری) کاآغاز ہوتا ہے۔ اسلامی سال کے پہلے مہینے یعنی محرم الحرام کا دسواں روز یوم عاشور کی قرآن و احادیث میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اس روز کے متعلق مشہور ہے کہ دس محرم الحرام کو یوم عاشورہ اسلئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن اللہ ربّ العزت نے دس پیغمبروں(علیہ السلام) کو دس اعزازات عطاء فرمائے۔ علمائے کرام کے مطابق اسی روزحضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت ادریس علیہ السلام کومقام رفیع پر اٹھایا گیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ سیدناابراہیم علیہ السلام پیداہوئے اوراسی روزرب کائنات نے انکواپنادوست (خلیل) بنایا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کوآگ نمرودسے بچایا گیا۔ حضرت داؤدعلیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی واپس ملی، حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری ختم ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کودریائے نیل سے راستہ ملا، اور فرعون غرق کردیا گیا۔ اسی روز سیدنایونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالے گئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوآسمان پراٹھا لیا گیا، محبوب خدا سرورانبیاء احمدمجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور تخلیق ہوا۔ اوراسی یوم عاشورہ کے دن امام عالیٰ مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جام شہادت نوش کیا، اور اس طرح ظالم و مظلوم، حق و باطل کے درمیان اس عظیم معرکہ کو کربلا کے نام سے تاریخ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا ۔
اسلام ایثارکی تعلیم دیتاہے، حتیٰ کہ ختم ہوتاہوا اسلامی سال حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتاہے اور نئے اسلامی سال کا پہلا دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عاشورہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رفقا ء کی شہادت کی یاد دلوں میں زندہ کرکے، اسلام کی سربلندی کے لیے قربانی کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں ہجرت کی اور جان و مال سے جہاد کیا۔ ان کا ربّ انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جہاں ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والے عیش کے سامان ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقینا اللہ تعالیٰ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کے لئے بہت کچھ ہے (التوبہ آیت 19 تا21 )۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہجرت و شہادت جیسے معیاری اوصاف کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالیٰ او ر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی محبت، دین اسلام کی دعوت و اشاعت، برائیوں کے ازالہ کے لئے پیہم کوشش، فکر آخرت اور دنیا سے بے رغبتی ممکن ہے۔ جس بندہ مومن کے اندر یہ اوصاف پروان چڑھیں اسے دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہوگی۔ آنے والا ہر نیا اسلامی سال زندہ دلوں پر صراط المستقیم پر چلنے کی دستک دیتا ہے۔ اور یہ جائزہ لیتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پسندیدہ اعمال و افعال، اورا سلام کی سربلندی کے لئے کس قدر جذبہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اچھی عادات اور مثالی اخلاق کو اپنا شعار بنانا چاہئے، سماجی برائیوں سے اجتناب اور بری عادات کو ترق کرنا چاہیے تاکہ غیر مسلم بھی ہمارے عمدہ اخلاق سے متاثر ہوکراسلام قبول کریں۔