یکم محرم الحرام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے، جو اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد، دعائے رسول کا نتیجہ، عالم و زاہدصحابی، کاتب وحی، عشرہ مبشرہ کی بشارت اور شہادت کی خوشخبری کے حامل، نبی اکرم ﷺ کے سسر، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے داماد، 22 لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقے کے حکمران، فاتح بیت المقدس اور بے مثال عادل و منصف حکمران تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا مکمل نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص تھی۔ آپ عدوی قرشی تھے۔ اور آپ کی پیدائش 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ اور آپ نے 6 نومبر 644ء بمطابق یکم محرم الحرام 24ھ کو مدینہ منورہ میں شہادت پائی۔ آپ کا بے مثال دورِ خلافت تقریباًساڑھے دس برس پر محیط تھا۔
آپ جیسی نابغہ روزگار اور فقید المثال شخصیت محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً صدیوں بعد جنم لیتی ہیں۔ اور پھر زمانہ تا ابد ان کی عظمت و رفعت کے تذکرے کرتا اور ان کے کارناموں کو یاد رکھتا ہے۔ آپ اسلام کی وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جن کے قبول اسلام کے لیے خود خاتم النبیین ﷺ نے اللہ سے دعائیں مانگی تھیں۔
(اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب۔) (جامع ترمذی: 3681) ترجمہ:”اے اللہ! آپ ابوجہل یا عمر بن خطاب
دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ آدمی کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما دیں۔
؎ جنہیں ابراہیم نے مانگا، انہیں محمد کہتے ہیں
جنہیں محمد نے مانگا، انہیں عمر بن خطاب کہتے ہیں
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کی یہ دعا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں قبول فرمائی اور انہیں قبول اسلام کی توفیق عطا فرما دی۔ آپ 6 نبوی میں پینتیس برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں قبول اسلام کے شرف سے فیض یاب ہو چکے تھے۔
ان کو گزرے ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں مگر ان کے کارناموں کی دھوم اور گونج آج بھی زمانے میں باقی ہے۔ غیر مسلم بھی ان کے نام و کام سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ دنیا کے قوانین میں ان کے بنائے گئے قوانین کو بنیادی اہمیت و حیثیت حاصل ہے، خواہ غیر مسلم اس کو تسلیم کریں یا نہ کریں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد ﷺ! اہل اسلام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے، تو آسمان پر ملائکہ نے بھی خوشی منائی ہے۔ (سنن ابن ماجه: 103)
جب آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت مکہ کے گنے چنے سترہ پڑھے لکھے لوگوں میں آپ بھی شامل تھے۔ بعد میں آپ کو کتابتِ وحی کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب.) (جامع ترمذی:3686) ترجمہ: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “تم پر ایک شخص داخل ہوگا جو جنتی ہے۔”
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے. پھر آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس ایک اور جنتی شخص آنے والا ہے. پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ (جامع ترمذی :3694)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نبی مکرم ﷺ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ہمراہ کوہ احد پر تشریف لے گئے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ حرکت کرنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا:
(اثبت احد، فما عليک الا نبی او صديق او شهيدان۔) (صحيح بخاری: 3483) ترجمہ: اے احد! ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔
آپ کا شمار علماء و زاہدین قسم کے صحابہ میں ہوتا تھا۔ آپ سے کئی احادیث مروی ہیں۔ آپ نبی نہیں تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان پر وہ حقائق جاری کردیے جو وحی کا حصہ بن گئے۔ مثلاً اذان دینے کا طریقہ، خواتین کے لیے پردہ و حجاب کا حکم اور شراب کی حرمت وغیرہ۔
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: (لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَر.) (صحیح بخاری:3689) ترجمہ: تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہے۔
اسی مفہوم کی ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ: (لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ.) (صحیح بخاری:3689) ترجمہ: تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ وہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند روز پہلے بیماری کے دوران چند صاحب فہم و فراست اور صائب رائے رکھنے والے مسلمانوں کے مشورے سے حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کو اپنے بعد کاخلیفہ نامزد کر دیا۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 23 اگست 634ء مطابق 22 جمادی الثانی 13ھ کو خلافت کی بھاری ذمہ داری سنبھالی اور اس کو اپنی شہادت تک اتنے احسن طریقے سے نبھایا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
آپ نے اپنے لیے امیرالمومنین کا لقب اختیارکیا۔ آپ کا دور خلافت ایسا عظیم الشان، فقید المثال اور سنہرا دور ہے جس کی آج تک کوئی نظیر پیش نہیں کر سکا۔ آپ کے دور میں اسلامی سلطنت کی حدود 22 لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقے تک پھیل گئیں۔ اس دور کی قیصر و کسریٰ جیسی سپر پاورز اسلام کے زیر نگیں آگئیں اور زمین میں انسانوں کی غلامی کے بجائے اللہ کی غلامی اور اللہ کا بنایا گیا نظام حکومت قائم ہوا۔
اگر آج امت مسلمہ کے تقریباً 60 ممالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا ایک بھی حکمران ہوتا تو امت کا حال فرق ہوتا۔ امت مظلومیت اور بے بسی کے اس حال کو نہ پہنچتی۔ شام و فلسطین، کشمیر، برما، آسام اور دیگر اسلامی ممالک لہو لہان نہ ہوتے۔ امت قرآن و سنت کو تھام کر، اس پر عمل پیرا ہو کر عروج کے بام فلک کو چھو رہی ہوتی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قوانین کو اپنانے کا راستہ تو آج بھی کھلا ہے۔
رجوع الی اللہ اور رجوع الی الجہاد میں اُمت مسلمہ کی بقا اور نشاۃ ثانیہ کا راز پوشیدہ ہے۔ اُمت مسلمہ کو آج پھر عمر فاروق ثانی کی اشد ضرورت ہے۔