اے وطن ، قائد اعظم کے مقاصد کی زمیں
خواب_اقبال کی تعبیر _دلآویز و حسیں
تیری مٹی سے فروزاں ہے عقیدت کی جبیں
تو کہ ہے خون_شہیداں کے تقدس کا امیں۔
وطن عزیز پاکستان، ساری اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی طاقت ہے اور امت کی امیدوں کا محور بھی ہے۔ موجودہ دور میں جب کہ دور دراز کی خبریں بھی آسانی سے میسر ہیں، ہم بحیثیت ملتِ اسلامیہ ایک دوسرے سے بہتر طور پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم ترکی میں آیا صوفیہ مسجد میں نماز جمعہ کے روح پرور مناظر سے تسکین پاتے ہیں اور فلسطین میں القدس کی خاطر جدوجہد کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں لبنان میں ایٹمی دھماکہ کے خوفناک دن کو گویا ہم نے لبنان کے زخمی مسلمانوں کے ساتھ گزارا۔ جنت نظیر کشمیر کے لہورنگ مناظر نے بھی ہمیں بہت رلایا۔ ہم نے شام کے مہاجرین کی حالتِ زار بھی دیکھی اور میانمار کے لٹے پٹے مسلمانوں کے درد کو بھی محسوس کیا- ان ممالک نے جو کچھ کھویا ہے وہ ہمارے پاس موجود ہے یعنی آزادی۔
آزادی کا مطلب پوچھو غزہ کے ان مسلمانوں سے جن کے گھر کے اوپر جنگی طیارے پروازیں بھرتے ہیں اور ان کے شور سے بچے روتے رہتے ہیں۔ آزادی کتنی مہنگی ہے پوچھوکشمیر کی بیٹیوں سے جن کے گھروں پر رات کے اندھیرے میں فوجیوں کی یلغار دروازہ توڑ کے اندر آجاتی ہے۔ پوچھو آزاد فضا کیا ہوتی ہے شام کے مسلمانوں سے، جنھیں کسی تہہ خانے میں بغیر کچھ کھاۓ پئے ہفتوں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پوچھو سانسیں کس طرح رکتی ہیں چائنہ کے یغور مسلمانوں سے جن کو قید خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ! تو پھر آپ بہتر طور پر جان سکیں گے کہ آزادی کس نعمت کو کہتے ہیں۔
آج سے75برس قبل ہمارے آباؤ اجداد نے اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کئے اور پھر کہیں جا کر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو، اپنے بچوں کو آزاد فضا اور زمین دلا سکیں- ہم نے اپنے رب سے مانگا کہ ہمیں ایک خطۂ زمین عطا کر جہاں ہم دین کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں اور رب نے ہمیں وہ خطہ عطا کردیا۔
بقول شاعر:
میں ہمیشہ اپنے سوالِ شوق کی کمتری پہ خجل رہا
کہ تیری نوازشِ بے کراں نے میری طلب سے سوا دیا ۔
الحمدللہ ! وطنِ عزیز پاکستان،اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تحفۂ خاص ہے٘۔ بہترین زرخیز زمین، بہترین آب و ہوا، بہترین موسم، بہترین انسانی وسائل، بہترین سمندری بندرگاہیں، بلند ترین پہاڑی چوٹیاں، ہیرے جواہرات اورمعدنی ذخائر سے مالا مال پاکستان۔ اللہ نے ہم پہ اپنی نعمتیں تمام کردی ہیں، کسی چیز کی کمی نہیں رکھی ہے، کمی اگر ہے تو ہماری کوششوں میں ہے کہ ہم نے اپنے وطن کو جس مقصد کے لیے حاصل کیا تھا، اس مقصد کے لئے محنت نہیں کر رہے، ہم نے اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا تھا، ہم نے اپنے نظام تعلیم کی اصلاح کرنا تھی، نظام معیشت و تجارت کو دین کے مطابق چلانا تھا، اسمبلیوں میں رب کے احکام کا اطلاق کرنا تھا، آئین میں اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ کی ذات ہے، اسے اپنے عمل سے ثابت کرنا تھا کہ ہم صرف اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور وقت کے کسی فرعون سے نہیں ڈرتے !ہم نے مظلوموں کے زخموں پہ مرہم رکھنا تھا، بھائی چارے کی فضا بنانی تھی، ہم نے اسلامی دنیا کا سہارا بننا تھا۔
لیکن یہ کام تو ہم نے کئے ہی نہیں۔ ہم نے اپنا ووٹ بھی بھیڑ چال میں ضائع کردیا، کسی سیاسی پارٹی کے منشور کو دھیان سے پڑھا ہی نہیں کہ وہ پارٹی حکومت میں آکے کیا کام کرے گی کچھ کرے گی بھی یا نہیں؟ ہم نے لیڈر چنتے وقت بھی اس کی زندگی کا ریکارڈ چیک نہیں کیا اور نہ اس کے قول و فعل کے نفاق کو ہی دیکھا، یہی وجہ ہے کہ آج ہماری آزادی کی دولت خطرے میں ہے، چوروں اور لٹیروں نے اسے کھا کھا کے کنگال کردیا ہے، وطنِ عزیز کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غلامی میں دے دیا ہے،عوام مہنگائی اور بےروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں، قومی اثاثوں کو بیچا جارہا ہے، قومی پالیسیاں وطن سے باہر بن رہی ہیں، دوہری شہریتوں والے لوگوں کو مسندِاقتدار پر بٹھا دیا گیا ہے، ہر اہم پوسٹ پر کوئی بہروپیا وطن کی دولت کو اپنی کرپشن کی قبر میں چھپائے بیٹھا ہے، ہمارے تجارتی و ترقیاتی منصوبوں کو غیر ملکی آقاؤں کو ٹرے میں رکھ کے پیش کردیا گیا ہے، ہماری ناقص خارجہ پالیسی نے ہمیں دنیا بھر میں اکیلا کردیا ہے اور کوئی ملک ایک بیان تک ہمارے حق میں دینے کا روادار نہیں (سوائے ایک ترکی کے ) عملاً ہم دنیا میں تنہا کھڑے ہیں۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ ہم صورتحال کی نزاکتوں کا ادراک کریں، نام نہاد خوش فہمیوں کے خول سے باہر آکے تلخ حقیقت کا سامنا کریں، اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں، بار بار آزمائے ہوۓ لوگوں کو مسندِاقتدار پہ لا کے نہ بٹھائیں،کسی لیڈر کی پرسنالٹی اور کپڑوں کو نہیں بلکہ اس کے عمل، کردار اور ریکارڈ کو دیکھیں، اپنی صفوں میں ایسے دیانت دار اور کھرے لوگ تلاش کریں جن کی جڑیں اسی پاک مٹی میں ہیں، جن کی اولادیں اور اثاثے بیرونِ ملک نہیں ہیں، جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور عوام کے دکھ درد میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایسے ایمان دار لوگ کم ضرور ہوں گے لیکن تلاش کرنے پر مل جائیں گے، جو اس دھرتی کے بیٹے بھی ہوں گے اور اسلام کی عظمتوں کے امین بھی، وہی لوگ قوم کی ڈوبتی ناؤ کے پتوار سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آزادی کی حفاظت کا راز یہی ہے کہ ان لوگوں پر اعتماد کرو۔
اے پیارے لوگو، سجدے میں جا کے مانگو دعا یہ خدا سے
ارضِ وطن کو سیراب کردے اپنے کرم کی گھٹا سے !۔