امریکہ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی

ایک اندازے کے مطابق امریکی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف 4 فیصد ہے، لیکن اس کے پاس 400 ملین سے زائد بندوقیں ہیں، جو دنیا کے کل نجی آتشیں اسلحے کا 46 فیصدبنتاہے۔ یوں امریکہ میں نجی بندوق کی ملکیت کی شرح دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ گن وائلنس نہ صرف امریکی معاشر ے کا ایک دائمی مرض ہے، بلکہ حالیہ برسوں میں عوامی سلامتی کے بگاڑ، نسلی تنازعات میں شدت اور پرتشدد قانون کے نفاذ کا نتیجہ بھی ہے۔

گن وائلنس کی مہلک دائمی بیماری کے سامنے، امریکی حکومت کی ناکامی نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ نام نہاد امریکی طرز کی جمہوریت عام لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتی، اور نام نہاد انسانی حقوق کی روشنی طویل عرصے سے مدھم ہے۔ جبکہ امریکہ کے اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ د نیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناطے ایک عرصے سے اپنے بچوں کو بھی تحفظ دینے سے قاصر ہے، ایسے میں امریکی سیاست دان جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟۔ کبھی شاپنگ مالز، اسکولز، اور یوم آزادی کی پریڈ میں ماس شوٹنگ کے واقعات امریکہ میں اسلحے کے بڑھتے ہوئے جرائم کا ایک اور سلسلہ ہے، جہاں گن وائلنس آرکائیو ویب سائٹ کے مطابق ہر سال فائرنگ سے 40 ہزار کے قریب اموات ہوتی ہیں۔ دوسری جانب اسلحے کی ملکیت کے حوالے سے منقسم آرا امریکی میں حالیہ ماہ میں دو ماس شوٹنگز کے بعد اور بھی اہم ہو گئی ہیں۔

گزشتہ دنوں یکے بعد دیگرے نیو یارک میں ایک سپر مارکیٹ میں فائرنگ کے نتیجے میں 10 سیاہ فام افراد مارے گئے تھے جبکہ اس کے کچھ ہفتوں بعد ہی ٹیکسس میں ایک سکول میں فائرنگ کے نتیجے میں طلبہ سمیت 21 ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکا کی متعدد ریاستوں میں رواں ماہ جولائی کے پہلے ہفتے کے دوران گن وائلنس کے واقعات میں اضافہ ہو اہے، 315 بڑے پیمانے کے فائرنگ واقعات ہوئے جن میں تقریباً 22ہزار 500 افراد ہلاک ہوئے، گن وائلنس سے اب تک زخمی ہونے والوں کی تعداد مرنے والوں کی کل تعداد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ صرف 5 ریاستیں ایسی ہیں جہاں فائرنگ کے کسی واقعے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ قدامت پسند اسلحہ رکھنے کے حق میں سب سے بڑی دلیل کے طور پر امریکا کے آئین کو پیش کرتے ہیں۔ امریکا میں آئین کی دوسری ترمیم کے تحت ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ یہ ترمیم 1791 ء میں منظور کی گئی تھی۔ گن کنٹرول کے حامیوں کے نزدیک 1791 ء کے بعد سے اب بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ اس دور میں یہ ترمیم منظور کرنے کا مقصد یہ تھا کہ امریکی شہریوں کو کسی بھی جنگ کی صورت میں ملیشیا منظم کرنی پڑ سکتی ہے اور اس ضرورت کے تحت انہیں اسلحہ رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

قدامت پسند دوسری ترمیم کو کسی خاص دور یا مقصد کے تحت محدود تصور نہیں کرتے بلکہ وہ اسے امریکہ کے بنیادی شہری حقوق میں شامل کرتے ہیں۔ وہ ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ اپنے دفاع کے لیے بھی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس لیے اگر گن کنٹرول کے لیے دوسری ترمیم میں دیے گئے حق کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو زیادہ جرائم کی شرح رکھنے والے علاقوں میں رہنے والے بھی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں قدامت پسند حلقوں اور ری پبلکن پارٹی کا موقف ہے کہ اسلحے کے باعث ہونے والے تشدد کی وجہ اسلحہ نہیں بلکہ انسانی رویے، نفسیاتی مسائل آگاہی اور تربیت کی کمی ہے۔ وہ ویڈیو گیمز اور فلموں وغیرہ کو گن وائلنس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ آزاد خیال طبقے اسلحے تک رسائی کو گن وائلنس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ لبرل حلقے اور ڈیموکریٹ پارٹی اسلحہ کی فروخت کی حدود متعین کرنے کی حامی ہے۔ ان کے نزدیک اسلحہ خریدنے والے کا پس منظر، عمر اور فروخت کے لیے اسلحے کی درجہ بندی کی حدود متعین کرنا ضروری ہے جسے وہ گن کنٹرول کہتے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیاں ایک ایسا دور ہے جس میں 20 کروڑ سے زیادہ بندوقیں امریکی مارکیٹ میں فروخت ہوئیں اور ملک ’گن کلچر 1.0 سے آگے بڑھ گیا جب بندوقیں کھیل اور شکار کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

گن کلچر 2.0 میں بہت سے امریکی اسلحے کو اپنے گھروں اور خاندانوں کی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ انڈسٹری کے ایک سابق ایگزیکٹو ریان بسے کے مطابق اس تبدیلی کو کی گن انڈسٹری کی طرف سے تقریباً 20 ارب ڈالر مالیت کے اشتہارات کے ذریعے خوب پھیلایا گیا جس نے جرائم اور نسلی فساد کے خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ 1770ء اور 1780ء کی دہائیوں میں نئے امریکہ کو بنانے والوں کو بندوق کی ملکیت کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بندوقیں ہی یورپ کے سامراجی سلطنتوں اور ان کی فوجوں کی اجارہ داری کا اصل زریعہ ہیں جس کے خلاف امریکی لڑرہے تھے۔ امریکی آئین کے خالق جیمز میڈیسن نے اسلحہ رکھنے کے فوائد کا حوالہ دیا تھا جو کسی بھی دوسری قوم کے مقابلے میں امریکیوں کے پاس سب سے زیادہ ہے۔ حالانکہ پینٹا گون نے عالمی سطح پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے فنڈز مختص کرنے سے لے کر کئی ممالک میں فوجی مداخلت تک کر کے دنیا کا امن تہہ و بالا کر کے رکھ دیا اور خود اپنے گھر میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، دہشت گردی کو نہ رو ک سکا۔

امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ خود امریکی معاشرے میں انتہا پسندی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے، اور اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو انتہا پسندی عام دھارے کی سیاست میں غالب حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔ امریکی دانشور سنتھیا ملر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جو امریکی ارباب اختیار کے لیے لحمہ فکریہ ہیں۔ سنتھیا ملر لکھتی ہیں کہ دو ہزار بیس کے امریکی صدارتی انتخابات سے کچھ مہینوں پہلے اور بعد میں، لاکھوں امریکیوں نے غلط معلومات کے آن لائن سیلاب سے متاثر ہو کر جھوٹ پر مبنی رائے قائم کی۔ اس جھوٹ میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جانے والا یہ جھوٹ بھی شامل ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر فراڈ کے ذریعے جو بائیڈن نے یہ انتخابات چوری کر لیے ورنہ صدر بننا ڈونلڈ ٹرمپ کا حق تھا۔ چھ جنوری دو ہزار اکیس کو اس دھوکے اور فریب پر یقین رکھنے والے ہزاروں ٹرمپ کے حامیوں نے بائیڈن کی فتح کو روکنے کے ارادے سے امریکی دارالحکومت پر حملہ کیا، اور دارالحکومت کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ اہم رجحانات کی عکاسی کرتا ہے، جو آنے والے سالوں میں امریکی سیاست کی تشکیل کرتے رہیں گے۔

ٹرمپ کے عروج سے پہلے ہی، یہ قوتیں برسوں سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر طاقت حاصل کر رہی تھیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد کا دور دائیں بازو کے انتہا پسند لوگوں کے لیے زرخیز تھا، جب قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس سروسز نے تقریباً صرف جہادی خطرے پر توجہ مرکوز کی تھی۔ جبکہ اس سے فائدہ اٹھا کر مسلم دہشت گردوں کا خوف، سفید فام بالادستی کے حامی اور عیسائی قوم پرستوں کے ہاتھ میں ایک طاقت ور ہتھیار بن گیا تھا۔