مجھے کل تک پیسے پورے کرنے ہیں کمیٹی کے تم کب دو گے، عینی نے شوہر کے ہاتھ میں لنچ باکس پکڑاتے ہوئے کہا، ہاں کوشش تو کر رہا ہوں ہو جائے گا کچھ نہ کچھ کل تک ان شاءاللہ ! ماجد نے عینی کو تسلی کرائی اور اللہ حافظ کہہ کر گھر سے نکل گیا۔ بس اسٹاپ تک جاتے جاتے وہ یہی سوچتا رہا عینی کو تسلی تو کرا دی مگر پیسوں کا بندوبست ہو گا کہاں سے؟۔
ماجد ایک پڑھا لکھا اور سلجھا ہواانسان تھا، کراچی کے علاقے دستگیر میں رہائش تھی، والد نے اپنی ساری زندگی کی کمائی سے 120 گز کا ایک گھر بنایا تھا جس میں اس کے امی ابو دو چھوٹی بہنیں، اس کی بیوی اور دو بچے رہتے تھے۔ والد ریٹائر ہو چکے تھے اب سارے گھر کی ذمہ داری ماجد پر ہی تھی۔
ماجد بی کام کرنے کے کافی عرصے بعد بھی اسے کوئی اپنے شعبے سے متعلق مناسب نوکری نہ مل سکی تھی تو وہ مجبوراً ایک فیکٹری میں مزدوری کرنے لگا کیونکہ گھر چلانے کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا، امی کو اکلوتے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کے بہت جلدی تھی ورنہ ماجد اتنی جلدی شادی کرنے کے حق میں نہ تھا اب حال یہ تھا کہ آمدنی تو بڑھتی نہ تھی مگر فیملی بڑھ چکی تھی، شادی کے چار سال میں دو بچے ہوگئے اور خرچے بڑھتے چلے گئے، ماجد فیکٹری میں نوکری کرتے ہوئے بھی اچھی جاب کی تلاش کرتا رہتا تھا مگر اس کی بد نصیبی یہ تھی کہ وہ کراچی کا شہری تھا، جہاں ہر فرد صرف پریشان ہی ہو سکتا ہے، کبھی نوکری کے لئے تو کبھی بجلی پانی گیس کے لئے، کبھی ہسپتال کی لائنوں میں دھکے کھا کر تو کبھی بس اسٹاپ پر بس کے لئے خواری اٹھا کر، ان ہی سب پریشانیوں سے ماجد بھی لڑ رہا تھا وہ تو اللہ کا بڑا کرم تھا کہ اللہ نے بیوی صابر دی تھی کبھی کوئی مطالبہ یا فرمائش نہیں کرتی تھی، دو ہزار روپے مہینے کی کمیٹی بھی اس نے اس لئے ڈالی تھی کہ بیٹا تین سال کا ہونے والا تھا اس کا اسکول میں داخلہ کرانا تھا۔
بس آگئی تھی ماجد بس میں سوار ہوا سوار کیا ہوا پاؤں پائیدان رکھ کر لٹک گیا بس کچھا کھچ بھری ہوی تھی اور دوسری بس کا انتظار کرنے کا وقت نہیں تھا۔ فیکٹری پہنچ کر وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا اسی دوران اس کے موبائل کی گھنٹی بجی یہ اس کے بچپن کے دوست شاکر کی کال تھی اس نے فون ریسیو کیا سلام دعا کے بعد شاکر نے اسے ایک جاب بتائی پرائیویٹ کمپنی میں اکاؤنٹنٹ کی ضرورت ہے آج ہی چلے جانا شاکر نے پتا وغیرہ سمجھا کر فون بند کر دیا۔ ماجد نے سوچا آدھے دن کی چھٹی لے لیتا ہوں بارش کے بھی اثار ہیں انٹرویو دے کر گھر چلا جاؤں گا۔ فیکٹری منیجر سے چھٹی لے کر وہ فیکٹری سے باہر نکلا تو موٹی موٹی بوندیں برسنا شروع ہو چکی تھیں، بس اسٹاپ پر پہنچ کر وہ اپنی مطلوبہ جگہ جانے کےلئے بس میں بیٹھ گیا، کمپنی عائشہ منزل کے علاقے میں تھی بس سے اتر کر کافی دور تک پیدل چلنا تھا، ماجد تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جا رہا تھا بارش بھی مسلسل تیز ہوتی جارہی تھی ماجد نے سوچا تھوڑی دیر کہیں رک کر بارش کے رکنے کا انتظار کر لیتا ہوں اسی طرح چلتا رہا تو میں اورمیرے سارے کپڑے بھیگ جائیں گے، انٹرویو دیتے وقت برا امپریشن پڑے گا۔ یہی سوچ کر وہ سڑک پار کرنے کے لئے آگے بڑھا کیونکہ سڑک کے پار ایک شیڈ نظر آرہا تھا، جہاں وہ تھوڑی دیر پناہ لے سکتا تھا۔
پھر لوگوں نے کراچی کے ایک نوجوان پر قیامت گزرتے دیکھی جس سڑک کو پار کرنے کے لئے ماجد آگے بڑھا وہاں بجلی کا تار ٹوٹ کر گرا ہوا جو پانی کھڑا ہونے کے باعث نظر بھی نہیں آرہا تھا ماجد نے جیسے ہی اس مقام پر پاؤں رکھا اسے زبردست کرنٹ کا جھٹکا لگا اوروہ کئی فٹ دور جاکر گرا آس پاس چلتے لوگوں نے اسے تڑپتے ہوئے دیکھا مگر کرنٹ کے خوف سے کوئی نزدیک نہیں آیا لوگوں نے دور سے تدبیر کرنے کی کوششیں کیں مگر کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی اور ماجد نے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دی۔
کیا قصور تھا ماجد کا میں آپ کو بتاتی ہوں !
قصور نمبر 1۔ وہ ایک ایماندار غریب باپ کے گھر پیدا ہوا۔
قصور نمبر 2۔ وہ کراچی میں پیدا ہوا جہاں زندگی سستی اور نوکری مہنگی ہے۔
قصور نمبر3۔ وہ ایک ایسے شہر میں رہ رہا تھا جہاں بجلی کے بل تو ہزاروں کے آتے ہیں مگر مگر نام نہاد کے ای ایس سی کا ادارہ بارشوں میں ایسے حادثوں کو ہونے سے روکنے کے لئے کوئی سد باب نہیں کرتا۔
کراچی کا ایک عام آدمی کہاں جائے اپنی مشکل اور پریشانی کون سے ادارے کو جاکر بتائے یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے آج ماجد گیا ہے جو اپنے گھر کا واحد کفیل تھا، کیا یہ اکیلے ماجد کی موت ہوئی ہے کیا اس کے گھر کے سارے افراد اس جوان لاشے کو اٹھا کر بے موت نہیں مر جائیں گے ماجد کے بوڑھے باپ کے جکھے کاندھے مزید نہیں جھک جائیں گے آخر ان مشکل حالات کا سد باب کیا ہے؟۔
میرے کراچی والوں ایک حل میری نظر میں ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں ایماندار قیادت کو أگے أنے کا موقعہ دیں جنھیں سالوں سے آزماتے آرہے ہیں وہ کبھی کراچی کے لئے کچھ نہ کر پائے کسی نے الگ صوبے کا نعرہ لگا کر عوام کو پاگل بنایا تو کسی نے لسانیت کی آڑ لے کرکراچی والوں کا گھر بار جلایا، کسی نے بوری بند لاشوں کا تحفہ دیا تو کسی نے بھتے کی پرچی پکڑائی کسی نے ہڑتالیں کرا کر کاروبار بند کرائے تو کسی نے نوگو ایریاز بنائے، مگر کراچی کی تعمیر و ترقی کا کسی کو خیال تک نہ آیا ہاں اُنہیں خیال آیا تو اپنے بینک بیلنس بڑھانے کا جو ہر بار اپنا ایمان اور کراچی کا مستقبل بیچنے پر بڑھتا ہی گیا۔
کراچی والوں اب سوچنے کا وقت نہیں، شہر کے لئے اب ڈو اور ڈائی کا وقت ہے یہی وہ وقت ہے جب عوام کو اپنے ضمیر کی آواز سننی ہے اور صحیح جماعت اور ایمانداروں کو ووٹ دے کر کراچی کا مستقبل محفوظ کرنا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھیں اور سوچیں کہ ووٹ ڈالتے کہاں مہر لگانی اور کسے منتخب کرنا ہے جس سے ہم اپنے کراچی کے کسی اور ماجد کو بے موت مرنے سے بچا سکتے ہیں۔