کراچی کا بیٹا ! حافظ نعیم

مرتضیٰ وہاب صاحب جو اپنی والدہ کے نام پر زندہ ہیں، جن کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے، وہ کراچی کی اُمید اور کراچی کے بیٹے حافظ نعیم الرحمٰن صاحب پر تنقید کررہے ہیں۔ اور تنقید بھی ایسے شخص پر جو خلوص و محبت سے لبریز ہو۔ حافظ صاحب اگر چاہیں تو اپنی خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں بھئی جو شخص پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہو اور ان کی زوجہ محترمہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بلکہ سرجن اس شخص کے لیے اپنے ملک تو کیا بیرون ممالک میں بھی پیسے کمانے کے مواقع موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ آدمی کراچی کی عوام کے ساتھ کراچی کے سڑکوں پر نکل کر کبھی کے الیکٹرک کے خلاف دھرنا دے رہا ہوتا ہے تو کبھی بحریہ ٹاون کے متاثرین کی مدد میں مشغول ہوتا ہے۔

برسات کے موسم میں حافظ صاحب چاہیں تو گھر بیٹھ کر چائے اور پکوڑوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں مگر وہ گھٹنوں گھٹنوں پانی اور کچرے میں ڈوبے کراچی کی عوام کے مسائل پر آواز اُٹھانے اور ان کو حل کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ اور اپنے عمل سے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کراچی کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ بقول شاعر۔

موج بڑھے یا آندھی آئے ، دیا جلائے رکھنا ہے

گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے

اسی لیے لاوارث کراچی والے حافظ نعیم الرحمٰن کی محبت کے زیر اثر ان کو کراچی کا سربراہ مانتے ہیں۔ میں کراچی کی بیٹی ہونے کے حق سے، کراچی کی بقا کی خاطر، روشنیوں کی سلامتی کی خاطر، آنے والی نسلوں کی خاطر حافظ نعیم الرحمٰن کو کراچی کا میئر دیکھنا چاہتی ہوں۔ اگر کراچی والوں کا مستقبل روشن ہوگا تو حافظ صاحب کراچی کے میئر ہوں گے۔ وگرنہ وہی چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کا یہاں قبضہ ہوگا۔

میری تمام کراچی والوں سے گزارش ہے کہ الیکشن چاہے ابھی ہوں یا اگست میں۔ آپ جس پارٹی سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ کراچی کی سلامتی کی خاطر ووٹ ترازو کو دیں اور اپنے شہر کو ڈوبنے سے بچائیں۔