ہاکی میں زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ دنیا میں پاکستان ہاکی ٹیم اب عالمی درجہ بندی میں بہت نیچے ہے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں ہاکی کھیل اب متروک ہو چکاہے۔بلا شبہ پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے گرتے ہوئے معیار نے محب الوطن پاکستانی کو پریشانی اور تشویش میں مبتلا کر رکھاہے ۔ماہرین کے مطابق ہاکی کے کھیل میں ہماری مسلسل ناکامیوں کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے ہاکی کے کھیل کو دیدہ دانستہ باہر نکال دیا گیا ہے۔ کلب سسٹم کو تباہ و برباد کیا گیا اور نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ہاکی فیڈریشن کے مالی و انتظامی معاملات انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کئے ہوئے ہیں۔
ہر ادوار کی حکومتیں ہاکی کی سرپرستی کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں جس کی وجہ سے نوجوان کھلاڑیوں کی تلاش میں ناکامی بھی پاکستان ہاکی کی مسلسل ناکامیوں کی وجہ ہے۔ ناقص کار کردگی کی وجہ سے اب وکٹری اسٹینڈ پر پہنچنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ قومی کھیل ہاکی کی ساکھ اور معیار کو بحال کرنے کے لئے بھرپور اقدامات کئے جائیں۔ہاکی میں پاکستان کا زوال 1980 ء کی دہائی سے شروع ہوا۔ یہ گزرے دنوں کی بات ہے جب ہماری قومی ٹیم ہاکی کا چہار دانگ عالم میں خوب چرچا تھا، پاکستان نے اس میں عالمی شہرت حاصل کی اور دنیا کی نمبر ون کے اعزازات اپنے نام کروائے۔ ہاکی میں ایسے ایسے کھلاڑی ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں ملک کے ساتھ ساتھ انفرادی شناخت بھی قائم کی اور اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھنڈے گاڑھے۔ 1956ء کے میلبورن اولمپکس ،1964ء کے ٹوکیو اولمپکس اور 1972ء کے میونخ اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔
1960ء کے روم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر ہاکی کھیلنے والے تمام ممالک کو حیرت زدہ کردیا۔اس ٹیم میں شامل کھلاڑی پاکستان کے اصلی ہیروہیں جو ہاکی کی داستانوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ 1968ء میکسیکو میں منعقدہ اولمپکس گیمز میں ڈاکٹر طارق عزیز کی عمدہ قیادت میںٹیم نے گولڈ میڈل جیت کر اولمپکس میں پاکستان کا چاند ستارے والا پرچم سربلند کیا۔یہ وہ دور تھا جب ائیرمارشل (ر) نورخان کے کاندھوں پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کی صدارت کی ذمہ داری تھی۔ نور خان نے جتنا ہاکی کے کھیل کو فروغ دیا شاید ہی اس قدر کوئی اور اس کھیل کی خدمت کر سکا۔ درحقیقت یہ ایئرمارشل نور خان کی شخصیت تھی جنھوں نے ہاکی ورلڈ کپ کے خیال کو حقیقت کا روپ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے 1969 ء میں لاہور میں منعقدہ بین الاقوامی ہاکی ٹورنامنٹ کے موقع پر مجوزہ ورلڈ کپ کی خوبصورت ٹرافی انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے اس وقت کے صدر رینی فرینک کو پیش کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ ورلڈ کپ پاکستان میں منعقد ہوتا ہے تو وہ تمام ٹیموں کے سفری اور دیگر اخراجات بھی برداشت کریں گے۔پہلے ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان کو ملی لیکن اس وقت کے خراب سیاسی حالات کے سبب ورلڈ کپ کا انعقاد یہاں ممکن نہ ہو سکا۔ انڈین ہاکی ٹیم کے پاکستان میں کھیلنے کے حوالے سے بھی ملک میں شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔اس دوران ورلڈ کپ کی میزبانی انڈیا کو دینے کی بازگشت بھی سنائی دی لیکن پاکستان نے واضح کر دیا کہ اگر عالمی کپ کی میزبانی انڈیا کو دی گئی تو وہ اس میں شرکت نہیں کرے گا، بالآخر مارچ 1971 ء میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پہلا ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ اسپین کے شہر بارسلونا میں منعقد کرنے کا اعلان کر دیااور بارسلونا میں منعقدہ ورلڈ کپ1971ء میں سونے کا تمغہ جیتا۔
پاکستان نے آخری مرتبہ عالمی کپ 1994 میں جیتا اور اس کے بعد پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بری سے بدترین ہوتی گئی۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کی سرکاری ایوارڈ فہرست کے مطابق ملکی سطح پر سب سے زیادہ اعلیٰ اعزازات ہاکی کے کھلاڑیوں اورمنتظمین کو عطا کیے گئے جو ہاکی سے وابستہ شخصیات کی مقبولیت اور عوامی و حکومتی سطح پر پسندیدگی کی علامت ہے۔ہاکی میں 48 تمغہ حسنِ کارکردگی، 1 ہلال امتیاز، 1 ستارہ امتیاز، 9 تمغہ امتیاز، 1 تمغہ قائد اعظم، یعنی مجموعی طور پر 60 سرکاری اعزازات دیئے گئے ہیں۔ ہاکی کے روشن ستاروں میں حسن سردار، خالد حمید، حنیف خان، کلیم اللہ، سمیع اللہ، منظور الحسن، رشید الحسن، ناصر علی، توقیر ڈار، شاہد علی خان، سلیم شیروانی تنویر ڈار، خالد محمود، طارق نیازی، جہانگیر بٹ، سعید انور اور ذاکر حسین کے نام قابل ذکر ہیں جو آج بھی زبان پر عام ہیں۔
کسی بھی کھیل میں کامیاب نتائج کے حصول کیلئے جذبے اور مہارت کے ساتھ ساتھ بہترین اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر انتظامی منصوبہ بندی انتہائی ضروری ہے۔ ماضی قریب میں سیاسی وابستگیوں کی بنا پر ہاکی کا انتظام مخصوص افراد کے حوالے کردیا گیا جنہوں نے ہاکی کے ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ ضروری ہے کہ یہ ذمہ داریاں میرٹ پر صرف ہاکی کے تجربہ کار اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کے مالک عظیم کھلاڑیوں کے سپرد کی جائیں۔