چین میں قیام کے حالیہ برسوں میں اس بات کا بغور مشاہدہ کیا ہے کہ یہاں اعلیٰ قیادت زراعت کی ترقی کو ہمیشہ نمایاں اہمیت دیتی ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے دوروں پر نگاہ دوڑائی جائے تو ایک بات مشترک ہے کہ انہوں نے ہمیشہ زرعی ترقی اور دیہی احیاء پر خصوصی زور دیا ہے۔مختلف مواقع پر انہوں نے مقامی کھیتی باڑی کی صورتحال، اناج کی پیداوار، دیہی احیاء کے عمل اور کسانوں کی فلاح و بہبود سے وابستہ امور کے بارے میں ہمیشہ دریافت کیا ہے اور مقامی کاشت کاروں کے ساتھ تبادلہ خیال سے ان کے حالات زندگی کو بہت قریب سے جانا اور سمجھا ہے۔ شی جن پھنگ نے متعدد مواقع پر غذائی تحفظ کے استحکام کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کے فروغ پر زور دیا اور واضح ہدایات جاری کیں کہ نئے زرعی تصورات کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے تاکہ سماجی ترقی کو مربوط کیا جائے اورمستحکم اقتصادی ترقی کو برقرار رکھا جا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ چین میں اہم نوعیت کی عالمی سرگرمیاں وقتاً فوقتاً منعقد ہوتی رہتی ہیں جن میں دیہی ترقی اور زراعت میں جدیدیت کی وکالت کی جاتی ہے۔اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں چین میں عالمی زرعی ثقافتی ورثہ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا۔ کانفرنس کا موضوع رہا ، مشترکہ زرعی ورثے کا تحفظ اور جامع دیہی احیاء کا فروغ۔ چین کی تجویز کی روشنی میں منعقدہ اس اہم کانفرنس کا مقصد کثیر الجہتی تعاون کے لیے ایک تبادلہ پلیٹ فارم کی تشکیل، مشترکہ اقدامات سے متعلق بین الاقوامی اتفاق رائے کا حصول، دیہی احیاء کے امور کا فروغ اور زرعی تہذیب کی میراث کو بروئے کار لانا ٹھہر
یہ بات قابل زکر ہے کہ اس عالمی سرگرمی میں ایران، جاپان، جنوبی کوریا ، تھائِی لینڈ، تنزانیہ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، سری لنکا اور دیگر ممالک کے زرعی حکام، چین میں تعینات متعدد ممالک کے سفارت کاروں، زرعی بین الاقوامی اداروں اور تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے اہم عالمی زرعی ثقافتی ورثے اور خوراک کے نظام کی لچک داری، دیہی پائیدار ترقی، اور کسانوں کے معاش میں بہتری جیسے اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔شرکاء کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے کانفرنس آن لائن اور آف لائن دونوں طریقوں سے منعقد کی گئی۔
عالمی کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں چینی صدرشی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ بنی نوع انسان نے اپنی طویل تاریخ میں کاشت کاری کی شاندار تہذیب کو جنم دیا ہے اور زرعی ثقافتی ورثے کا تحفظ بنی نوع انسان کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ چین اہم عالمی زرعی ثقافتی ورثے کے بارے میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے اقدام کے مطابق کھیتی باڑی کے دوران زرعی وسائل کے استعمال میں ”تحفظ” کے پہلو پر ہمیشہ زور دیتا رہا ہے، اور چین کی جانب سے زرعی ثقافتی ورثے کے تحفظ کے عمل کو مسلسل فروغ دیا گیا ہے۔ چین کی جانب سے واضح کیا گیا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر زرعی ثقافتی ورثے کے تحفظ کو مضبوط بنانے، اس کی اقتصادی، سماجی، ثقافتی، ماحولیاتی، سائنسی اور تکنیکی ترقی کو فروغ دینے کا خواہاں ہے تاکہ پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں مدد مل سکے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دیا جاسکے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ 2012 میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی 18ویں قومی کانگریس کے بعد سے، صدر شی جن پھنگ نے زراعت، دیہی علاقوں اور کسانوں سے متعلق اقدامات کو ہمیشہ ترجیح دی ہے، جنہیں اجتماعی طور پر تین دیہی امور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایسے معاملات کو ملک کی ترقی اور دیہی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کلید سمجھا جاتا ہے۔اُن کی دیہی علاقوں کی ترقی میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دسمبر 2012 کے بعد دیہی امور کے حوالے سے انہوں نے مختلف مواقع پر ساٹھ سے زائد اہم خطابات کیے، جو کہ دیہی علاقوں کی تعمیر و ترقی میں صدر شی کے قوی عزم اور مخلصانہ فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں۔ 2017 سے دیہی احیاء کو چینی حکومت کے اہم ترین اہداف میں شامل کیا گیا ہے اور اس دوران قابل زکر نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ شی جن پھنگ کے وژن کی روشنی میں دیہی احیاء کی حکمت عملی کا سب سے بڑا ہدف، زراعت اور دیہی علاقوں کی جدت کاری ہے۔اس ضمن میں 2018 میں سی پی سی کی مرکزی کمیٹی اور ریاستی کونسل نے مشترکہ طور پر دیہی علاقوں کے احیاء کے لیے 2018 تا 2022 کی اسٹریٹجک منصوبہ بندی جاری کی، تاکہ دیہی لوگوں کے ذریعہ معاش میں بہتری سمیت زرعی اور دیہی جدیدیت میں خدمات کی فراہمی کو جاری رکھا جا سکے اور اس کو بہتر بنایا جا سکے۔
انہی کوششوں کے نمایاں ثمرات ہیں کہ آج چین دنیا کا سب سے بڑا اناج پیدا کرنے والا ملک اور اناج کا تیسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اس وقت چین اپنی ضروریات کا 95 فیصد سے زائد اناج خود پیدا کرتا ہے۔ دنیا کی 09 فیصد سے بھی کم قابل کاشت اراضی کے ساتھ، چین دنیا کا تقریباً ایک چوتھائی اناج پیدا کرتا ہے اور دنیا کی آبادی کے تقریباً ایک پانچویں حصے کو خوراک فراہم کرتا ہے۔یوں حالیہ عرصے کے دوران چین نے اپنے اناج کی پیداوار کے نظام کو جدید اور منظم کرتے ہوئے نہ صرف چینی لوگوں کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے، بلکہ دنیا بھر میں غذائی تحفظ کی کوششوں میں بھی نمایاں حصہ ڈالا ہے۔