تنہا رہنے کی نوبت آنی نہیں چاہئے

 

میں نے سنا تھا کہ برے دوست سے تنہائی بھلی بالکل درست بات ہے۔ مگر تنہا رہنے کی نوبت آنی نہیں چاہئے کیونکہ یہ عادت بری ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی مُجَرَّد رہنے کو پسند نہیں کرتا۔ ایک سے دو بھلے ،ہمارے معاشرے میں کتنے گھروں میں لوگ جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو وہ اکیلے رہ جاتے ہیں، انکے بچے، بیٹا، بیٹی یا کوئی منہ بولا بیٹا بھی آ کر رہ لے تو وہ بزرگ ایک دم کھل اٹھتے ہیں۔

ایک کہانی پڑھی تھی جس میں شوہر کہتا ہے کہ میری بیوی نے کچھ دنوں پہلے گھر کی چھت پر کچھ گملے رکھوائے اور بڑی محنت سے ایک چھوٹا سا باغیچہ بنا لیا۔ گذشتہ دنوں جب وہ شوہر صاحب چھت پر گئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بہت سے گملوں میں پھول کھلے تھے۔ کچھ میں ننھے ننھے لیموں بھی لگے تھے کسی میں تین چار ہری مرچیں لٹکی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ بانس کا پودا جو چند دن قبل گملے میں لگایا تھا سوکھ رہا تھا تو بڑی محنت سے گھسیٹ کر دوسرے گملے کے پاس انکی بیگم صاحبہ لا کر رکھ رہی تھی۔ شوہر نے کہا کہ اگر پودا سوکھ رہا ہے تو کھاد ڈالو اسے کھسکا کر کسی اور پودے کے پاس کردینے سے کیا ہوگا؟ بیوی نے مسکرا کر کہا کہ یہ پودا اکیلا ہے اس لئے مرجھا رہا ہے اسے اس پودے کے پاس کردینے سے وہ پھرسے لہلہا اٹھے گا۔ ورنہ تو پودے بھی اکیلے سوکھ جاتے ہیں۔ کسی دوسرے پودے کے ساتھ مل جائے تو سمجھو جی اٹھتے ہیں۔ یہ بات تو بڑی عجیب تھی کیونکہ شوہر کی آنکھوں کے آگے کئی مناظر گزر گئے کہ واقعی والد کے انتقال کے بعد والدہ صاحبہ کیسے بوڑھی سے بوڑھی اور سوکھے ہوئے پودے کی طرح بے جان سی ہوگئی تھیں، کیسے اداس اور خاموش ہو کر رہ گئی تھیں کہنے لگے کہ مجھے بیوی کی بات پر مکمل اعتماد اور یقین ہونے لگا کہ بچپن میں سچ مچ میں نے بازار سے ایک مچھلی، چھوٹی سی رنگین شیشے کے جار میں لا کر رکھی۔ پانی بھی ہمیشہ صاف ستھرا بھر کر رکھتا، کھانا بھی ڈالتا مگر وہ چپ چاپ ادھر ادھر گھومتی۔ کھانا بھی نیچے جار میں بیٹھ جاتا مگر وہ کچھ نہ کھاتی، دو دن بعد وہ پانی کی سطح پر الٹی مری پڑی نظر آئی۔ مجھے وہ مچھلی بہت یاد آئی کیونکہ مجھے کسی نے نہیں بتایا تھا کہ کم از کم دو تین مچھلیاں لانا چاہئے ورنہ میں تو شاید ساری ہی مچھلیاں خرید لاتا میری پیاری مچھلی یوں تنہا نہ مرتی۔

ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اردگرد کوئی اکیلا ہو تو اسے اپنا ساتھ دیجئے اور مرجھانے نہ دیں۔ اگر آپ خود اکیلے ہوں تو آپ بھی کسی کا ساتھ لیجئے اور یوں خود کو مرجھانے سے روکیں کیونکہ تنہائی دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے۔ گملے کے پودے کو ہاتھ سے کھینچ کر قریب لایا جا سکتا ہے لیکن آدمی کو قریب لانے کیلئے ضرورت ہوتی ہے رشتوں کو نبھانے کی، سمجھنے کی، محفوظ کرنے اور ہمیشہ سمیٹنے کی، ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہمارے ماحول میں اتنے مرد حضرات بڑی بڑی عمروں کو پہنچے ہوتے ہیں، صاحبِ حیثیت ہوتے ہیں۔ مگر تنہا رہتے ہیں۔ اسی طرح کچھ خواتین بھی، خواتین کے بھی بسا اوقات حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ وہ مجبور ہو جاتی ہیں اور کبھی بے بس ہو جاتی ہیں۔ مگر مرد حضرات کا ! صاحبِ حیثیت ہوتے ہوئے مُجَرَّد رہنا  کبھی بھی نہیں بھاتا۔

اگر دل کے کسی گوشے میں ہمیں لگے کے ہماری زندگی مرجھانے سی لگی ہے تو اس پر رشتوں کی محبت ڈالتے رہیں اور مسکرائیں، قدردانی کریں رشتوں کی، یہ رحم کے رشتے کتنے عظیم اور مقدس ہیں اللہ کی کتنی عظیم نعمت ہیں ان سے جان چھڑا کر آپ نہ صرف رشتوں کو پامال کرتے ہیں بلکہ خود بھی مر جھانے لگتے ہیں اوپر سے بھلے آپ ٹِپ ٹاپ دکھائیں مگر اندر سے کھوکھلے اور بناوٹی ہیں۔ اس مختصر کہانی کا مقصد ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ رشتوں کا احترام کریں ہر وقت عیب نہ تلاش کریں، کوئی شخص بھی بے عیب نہیں، ہم میں بھی کئی عیب ہونگے، دوست ہوں یا رشتہ دار ہوں انہیں انکی اچھائیوں اور برائیوں سمیت قبول کریں اور بنا کر رکھیں ورنہ بے عیب بندے کی تلاش آپ کو خود اکیلا کر دیگی اور بلا آخر آپ بھی سوکتے جائیں گے جو بات مل کر اورجُڑ کر رہنے میں ہے وہ مُڑ کر رہنے میں کبھی نہیں ہوسکتی۔ بازار جاناہویا کہیں اورتو ہمیں تو عادت ہے کہ کوئی ساتھ ہو جائے تو اچھا ہے، میں تو کہتی ہوں کہ ایک اور ایک دو نہیں بلکہ گیارہ جیسی پاور رکھتے ہیں۔ کام آسان ہو جاتا ہے جبکہ اکیلا بندہ بحالت مجبوری نکلتا ہے جبکہ اس کی کارکردگی بھی سست رہتی ہے۔ لوگوں سے محبت والا نرمی والا رویہ آپ کو کبھی تنہانہ کرے گا۔ جب ہم دنیاوی غیر ضروری اشیاء کے چکر میں پڑ جائیں گے تو بھی یہ دنیاوی رغبت ہمیں اپنی توجہ آخرت پر یا انجام پر رکھنے سے ہٹا دیگی۔ اس لئے بس اتنی ہی دنیا کی فکر کرنی ہے جتنا اس میں رہنا ہے۔ موت کے بعد کی زندگی تو ہمیشہ کی ہے لہٰذا اس کی فکر پر ہردم فوکس رہنے سے ہماری تنہائی ختم ہو جائے گی اور قرب الٰہی ہمیں اپنے سے اور بندوں سے مل کر رہنے پر راضی کر دیگا۔ ظاہر ہے اس کام کیلئے ہمیں ہی مجاہدہ کرنا ہوگا۔