اس دنیا میں ہمارا قیام انتہائی قلیل مدت پر محیط ہے حتٰی کہ اس قدر مختصرسفر ہے کہ ہمیں ادراک ہی نہیں ہو پاتا اور یہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ جب ہم ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور آخری سانسیں لینے لگتے ہیں تب پیچھے مُڑ کر دیکھنے پر احساس ہوتا ہے کہ تمام عمر جن چیزوں کے پیچھے بھاگتے گزار دی ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ نہ ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے آتے ہیں اور نہ ہی اس جہاں سے دوسرے جہاں کی طرف جانے کا فیصلہ ہمارا اپنا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہم خالی ہاتھ اس دنیا میں آتے ہیں اور خالی ہاتھ ہی لوٹ جاتے ہیں۔ اگر ہمارے اختیار میں ہوتا تو نہ ہم خود جاتے اور نہ ہی اپنے پیاروں کو اس دنیا سے رخصت ہونے دیتے کیونکہ یہاں ہمارے دل کے لبھانے کا بہت سامان ہے جس میں ہم کھو کر اپنی زندگی کا اصل مقصد بھول جاتے ہیں یا یکسر فراموش کر دیتے ہیں ۔
اس حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود ہم ہر وقت اس فانی دنیا میں اپنی نا ختم ہونے والی خواہشات کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ ایک خواب پورا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اگلی منزل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ہماری زندگی فرمائشوں، آسائیشوں کی غلام بنتی چلی جاتی ہے۔ ہم اپنے نفس کو مطمئن اور خوش کرنے کے چکر میں دائمی زندگی جو ہمیشہ کے لئے ہے اور جس کی طرف ہر بشر کو لوٹ کر جانا ہے کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں ۔
ہم انسان اس عارضی اور بظاہر دلکش دنیا کی رعنائیوں میں مَست ہو کر بھول جاتے ہیں کہ یہ کامیابیاں، آسائشیں، عیش و عشرت، پروٹوکول، عزت و مقام، کرسی، روپیہ پیسہ، دولت، شہرت، بلندی، جائیداد، مکان، گاڑی، بنگلہ، بنک بیلنس حتٰی کہ وہ تمام رشتے ناطے جو ہم خود بناتے ہیں یا ہمیں عطا کئے جاتے ہیں کو خوش کرنے کے لئے اپنے خالق، اپنے رب کو یاد کرنا اور خوش کرنا بھول جاتے ہیں ۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ لوٹ کر ہم نے اسی رب کے پاس جانا ہے اور یہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ دنیا فانی ہے۔ یہ انسان کو اپنے گرداب میں پھنساتی چلی جاتی ہے اور اس کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر انسان اپنی اخروی زندگی کو بھول جاتا ہے ۔ حساب کتاب کے دن کو بھول جاتا ہے ۔ انسان بھول جاتا ہے کہ اسے اس دنیا میں مختصر قیام کے لئے کسی خاص مقصد سے بھیجا گیا ہے اور وہ اپنی تخلیق کے اصل مقصد کو فراموش کر کے اک سراب کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا چلا جاتا ہے اور اپنی آخری سانس تک بھاگتا ہی رہتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ: بے شک جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے مُڑ جانے والے ہیں
ایک اور جگہ ارشار ہوتا ہے کہ: اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشہ ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے
اس فانی دنیا میں ہر چیز کو زوال حاصل ہے۔ یہ جوانی، طاقت، مال، اثرو رسوخ، اختیارات و مراعات ہر چیز اپنی خاص مدت پوری کر کے زوال پزیر ہونے والی ہے ۔ یہ وقت کبھی کسی کے لئے ٹھہرتا نہیں ہے، پَر لگا کر اڑتا چلا جاتا ہے اور اپنے پیروں تلے لوگوں کو روندتا چلا جاتا ہے ۔ رہ جاتی ہے تو اس کی دھول اور اس میں لپٹی یادیں اور افسوس کیونکہ ہم اپنی طاقت اور سرمائے کے زعم میں لوگوں کا دل دکھاتے ہیں ان کو تکلیف دینے اور ان کے حقوق غضب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور جب ہوش آتا ہے تو وقت گزر چکا ہوتا ہے ۔ اپنی پیاس بجھانے کے لئے دوسروں کا مال غضب کر لیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا یہ وقت گزر جائے گا اور ہم تہی دامن رہ جائیں گے اور آخر میں صرف ہمارے نیک اعمال ہی کام آئیں گے جو ہماری نجات کا ذریعہ بنیں گے ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ: تمارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمائِش ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔
ہمیں اس دنیا میں اس رب کریم کی عطا کردہ نعمتیں اور آسائِشیں ہمیشہ پرکشش محسوس ہوتی ہیں لیکن ہم شکرگزار ہونے کی بجائے مغرور ہو جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ تمام عنایتیں اللہ تعالٰی کی طرف سے عطا کی گئی ہیں جس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں اور وہی ذات ایک جھٹکے میں تمام آسائشیں واپس بھی لے سکتی ہے۔ ہماری ہر سانس اس کے ایک کُن کی محتاج ہے۔
جب زندگی اس قدر غیر یقینی ہو تو ہم کیسے یہاں اتنا سامان اکٹھا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ کفن کی جیبیں نہیں ہوتیں اور اللہ تعالٰی نے ہمیں آزمائِش کے لئے اس دنیا میں اتارا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ: اس نے موت اور زندگی پیدا کی تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے؟ (المک 6)
ہمیں حقیقی زندگی کی فکر کرنی چاہئیے تاکہ نیک اعمال کی پٹاری اپنے ساتھ لے کر جاسکیں اوراپنے رب کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور حضرت محمدﷺ کی امت کہلانے کے قابل ہو سکیں؟ ہمارا رتبہ، ہمارے تمام تعلقات، اثرورسوخ صرف سانس کی ڈوری سے منسلک ہیں جو ایک جھٹکے میں سانس کے ساتھ ہی خاک میں مل جائیں گے؟ ہماری اپنی اولاد، پیارے اور قریبی رشتہ دار جن کو خوش کرنے کے لئے ہم اپنی ساری زندگی گزارتے ہیں سب قبر میں اتار کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور ہم تن تنہا ہی خود اپنے کئے کا حساب دیں گے؟ لہٰذا خیال رکھیں کہ زندگی ایسے گزاریں کہ جب پیچھے مُڑ کر دیکھیں تو پچھتاوا نہ ہو ؟ ہمارے کسی عمل سے اللہ تعالی کی تخلیق کردہ مخلوق کی دل آزاری نہ ہو ‘ کسی کو تکلیف نہ پہنچے ہمارا جینا ‘ مرنا اللہ کی رضا میں ہو’ ہمارا رزق حلال رہے ‘ ہمارے دامن پر کوئی داغ نہ ہو اپنے وجود سے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹنے والے بنیں؟
ہمارے پیارے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو ضرور نقصان پہنچاتا ہے اور جو شخص آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو ضرور نقصان پہنچاتا ہے ? لوگو! فنا ہونے والی زندگی کو باقی رہنے والی زندگی پر ترجیح دو ؟۔