شہادت حضرت عثمان ایک حادثہ تھا، کبار صحابہ کے بعد از شہادت بیان ایک المیے کا اظہار ہیں۔ کسی نے کہا “خدایا میں عثمان کے خون سے بری ہوں”. کسی نے کہا “واجب ہے کہ کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے” کسی صحابی نے تبصرہ کیا کہ شہادت عثمان سے قبل اللہ کی تلوار نیام میں تھی اب یہ تاقیامت کھلی رہے گی۔ کسی نے کہا کہ اگر خون عثمان کا مطالبہ بھی نہ کیا جاتا تو لوگوں پر آسمان سے پتھر برستے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے فرمایا تھا کہ عثمان اللہ تمھیں ایک قمیص پہنائے گا جس کے اتارنے کا تم سے مطالبہ کیا جائے گا،پس تم اسے ہر گز نہ اتارنا (مفہوم)
سید کونین کی پیش گوئی غلط کیسے ہو سکتی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ عثمانِ ذوالنورین رضہ خلیفہ بنے۔ حکومت کے آخری دور میں یہودی سازش سے ایک فتنے نے جنم لیا۔ فتنہ اتنے منظم طریقے سے پھیلایا گیا کہ فتنہ پردازوں کے خلاف بروقت کوئی کاروائی نہ کی جا سکی۔ فتنہ پردازوں نے مسلمانوں کی کمزور رگوں کو ڈھونڈا اور شکوک و شبہات پھیلا دیئے، یہ شکوک و شبہات اتنے جاندار طریقے سے پھیلائے گئے کہ بہت سے مسلمان بھی فتنے کا شکار ہو گئے۔ نتیجتاً ، ایک گروہ وجود میں آیا جس نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ سے خلافت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی دانش اور دوررس نگاہ نے اندازہ لگا لیا کہ فتنہ جتنا زور آور ہو چکا ہے اس کو بزور دبایا نہیں جا سکتا، انھیں بجا طور پر اندیشہ تھا کہ اگر فتنے کو ریاست کی طاقت استعمال کرتے ہوئے کچلا گیا تو خونریزی تو ہو ہی گی، مسلمانوں کو بھی یہ اقدام منتشر کر دے گا۔ فتنہ پردازوں نے صورت حال اتنی نازک بنا دی کہ نہ تو ان کے اعتراضات کو برحق قبول کیا جا سکتا تھا، نہ خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ ماننا دانش مندی تھی اور فوجی یا ریاستی طاقت کے زور پر کچلنا آپ کے نزدیک حکمت سے کوسوں دور قدم تھا۔ لہٰذا، آپ نے تن تنہا اس فتنے کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، گویا مسلمانوں کو خون ریزی سے بچانا سنت عثمانی ہے، آپ نے اپنے عمل سے امت کو بجا طور پر پیغام دیا کہ قتل و خونریزی اور باہم دست و گریبان ہونا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہونا چاہیئے۔ آپ نے اپنے عمل سے مسلمان حکمران کو پیغام دیا کہ شوریٰ کے بنے ہوئے جمہوری حکمران کو بھی جب فتنے کے زور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا جائے تو جیتے جی اقتدار کی باگیں غلط ہاتھوں میں مت جانے دینا ۔ مگر مسلمانوں کو باہم دست و گریبان ہونے سے بھی حتیٰ الامکان بچائے رکھنا۔
18 ذی الحجہ ہر بار ایک مظلوم مگر باکردار ، متقی ، نرم دل اور غنی خلیفہ کی یاد دلاتا ہے جس نے مال پیش کرنے میں بھی غنی کا لقب پایا اور جان پیش کر کے بھی غنی ہونے کا حق ادا کر دیا۔
یہ جان دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اقتدار کی نشست سنبھالنے کے لئے نا جائز ہتھکنڈے اپناتا ہے اور مسلمان ہی رہتا ہے اور کون سنت عثمان پر عمل کرتے ہوئے، فتنوں کی آگ بھڑکانے کی بجائے امن وسلامتی کا پیغامبر ثابت ہوتا ہے۔