فی زمانہ غربت اور امارت کے پیمانے بدل چکے ہیں۔۔۔ یقیناً آنے والے وقت میں تاریخ دان مخمصے کا شکار ہو جائیں گے۔۔۔ بنو امیہ ،بنو عباس ،ترکی، برصغیر ۔۔۔ جس کسی دور کی تاریخ اٹھا لیں، آپ دیکھیں گے کہ مورخ نے نہایت آسانی سےامراء، غرباء اور متوسط طبقے کی درجہ بندی کی ہے، ان کے لباس، سہولیات، آسائشات میں۔ نمایاں فرق نے مؤرخ کو مخمصے کا شکار ہونے سے بچا لیا۔
موبائل،ٹی وی ،انٹرنیٹ، کی ایجاد نے محض رقبے کے فاصلوں کو ہی نہیں سمیٹا، بلکہ امیر اور غریب کے فاصلے کو بھی کم کیا ہے۔ جہاں یہ فاصلہ سمیٹا جانا خوش آئند ثابت ہوا ہے وہیں اینڈرائڈ کے حصول کی دوڑ نے لوگوں کے پسینے بھی نکلوا دیئے ہیں۔
اب جس کی جیب میں اینڈرائڈ موبائل ہو، اسے اپنی غربت چھپانے اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے غلام عباس کے افسانے کے تخلیقی کردار کی طرح اوورکوٹ پہننے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی، ‘اوور کوٹ’ کے نوجوان کی طرح غربت چھپانا تو وقت طلب بھی ہے جو بعض اوقات باعث ذلت بھی بن جاتا ہے۔ ‘ملمع’ کے کرداروں کی طرح فرسٹ کلاس کا مسافر والا دکھاوا بھی اب متروک ہو چکا۔۔۔
فی زمانہ امیر وہ ہے جس کے پاس بینک بیلنس ہے اور خوش قسمتی سے وہ غیر مادی شے ہے، لہٰذا، غریب کی غربت کا سفر تگ ودود کے نتیجے میں محض موبائل کے حصول پر ہی پورا ہو جاتا ہے۔ اب وہ کسی بھی عوامی مقام پر کھڑے ہو کر ، جیب سے موبائل نکال کر اور ایک خاص انداز میں ٹہل ٹہل کر اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ سکتا ہے اور ‘شوقین’ افراد کی فہرست میں اپنا نام داخل کروا سکتا ہے۔ تاہم ادیب کی گہری نگاہیں پڑ جائیں تو ادب کی دنیا کا تخلیقی کردار بننے کے امکانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب سفید پوش طبقہ اینڈرائڈ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے خود سے وابستہ رکھنا چاہتا ہے اور عوامی مقامات پر اپنا بھرم قائم رکھنے کو بطور ہتھیار بھی استعمال کرتا ہے۔ جس غریب کا موبائل دھوکہ دے جائے اس کا سکھ ، چین غارت ہو جاتاہے۔ غربت کا پردہ چاک ہونے کا اندیشہ قوی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا غریب عید پر بھی پچھلی عید کے کپڑوں پر تو سمجھوتہ کر لیتا ہے مگر موبائل کی سروس ضرور کرواتا ہے۔ جو غریب خاندانی جھمیلوں میں موبائل کی سروس بھی نہ کروا پائے پھر غربت کی فہرست میں آنے سے کوئی حربہ اسے نہیں بچا سکتا۔ اور یوں وہ کسی ادیب کی شہرت اور پیسے کمانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔