پتھر کے دور میں انسان کیسے زندگی بسر کرتا تھا اس پر محققین نے کافی تحقیق کی ہے اور اس پر سیر حاصل بحث بھی کی گئی ہے لیکن اگر کسی کو آج پتھر کا دور دیکھنا ہے وہ بلاتردد کراچی چلا آئے اسے یہاں وہ تمام چیزیں میسر ہوں گی جو پتھر کے دور میں موجود تھیں۔ اس شہر نے کوئی عجیب ہی قسمت پائی ہے۔ کہنے کو تو یہ کسی ماں کی طرح ہے سب کو اپنی آغوش میں سمو بھی لیتا ہے لیکن کوئی بھی اپنی ماں کا حق ادا کرتے ہوئے نظر نہیں آرہا ہے۔ اس شہر کی سڑکوں نے جتنا انسانی لہو پیا ہے اگر کوئی دوسرا شہر ہوتا تو دوبارہ سر اٹھانے کی جرات ہی نہیں کرتا۔ کراچی اب مافیاؤں کی سرزمین بن چکا ہے۔ پانی مافیا، زمین مافیا، قبضہ مافیا، دودھ مافیا، بلڈر مافیا اور تو اور اب یہاں ایک اسکول مافیا بھی موجود ہے جو تعلیم کے نام پر شہریوں کی جیبوں سے رقم نکالنے کے مشن پر گامزن ہیں۔
اس شہر کے اداروں کا بھی عجیب حال ہے۔ یہ کراچی میں ہی ہوسکتا ہے کہ آپ 80 گز کے پلاٹ پر سات سات منزلہ عمارتیں قائم کردیں۔ شہر میں کتنی ہی عمارتیں زمین بوس ہوگئیں لیکن ایس بی سی اے اور بلڈر مافیا کا گٹھ جوڑ جاری ہے اور کسی کے کانوں میں جوں نہیں رینگ رہی۔ یہاں کی ایک اور مافیا پانی مافیا ہے۔ شہر کے ہر علاقے کے لوگ پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ واٹر بورڈ خاموش تماشائی ہے اور ہائیڈرنٹ مافیا کی چاندی ہوگئی ہے، یہاں کے لاچار و بے بس شہری زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ شہر جہاں کبھی ٹرام اور سرکلر ریلوے چلتی تھی اب چنگچی رکشوں اورٹوٹی پھوٹی بسوں کے حوالےہے۔ اللہ اللہ گرین لائن بس منصوبہ فنکشنل ہوا ہے لیکن یہ ابھی تک نامکمل ہےاور صرف ایک مخصوص روٹ کے مسافر ہی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 14 سال اقتدار میں رہتے ہوئے ابھی حال ہی مں چند بسیں فراہم کرکے کراچی کے شہریوں پر احسان کیا ہے۔
کراچی میں ایک ایسٹ انڈیا کمپنی بھی موجود ہے جو کے الیکٹرک کی شکل میں یہاں کام کررہی ہے۔ کے الیکٹرک نے ریاست کے اندر اپنی ایک ریاست قائم رکھی ہے۔ یہ کمپنی اس قدر طاقتور ہے کہ یہ وزرا اور وزیر اعلیٰ کے احکامات تک کو نظر انداز کردیتی ہے۔ شہر میں بجلی کی ترسیل کے حوالے سے اس کی مونوپلی قائم ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ اتنابڑھا دیا گیا ہے کہ شہر قائد کے مکین اب سڑکوں پر آگئے ہیں شدید گرمی نہ پانی ہے اور نہ ہی بجلی شہری جائیں تو جائیں کہاں ؟ کے الیکٹرک کو لگام ڈالنے والا کوئی نظر نہیں آتا ہے۔ یہ جب چاہیں اووربلنگ شروع کردیتے ہیں اور جب چاہیں کسی بھی جگہ کی بجلی منقطع کردیتے ہیں۔
کراچی میں گزشتہ تین دہائیوں سے صرف ایک جماعت کی اجارہ داری رہی ہے لیکن اس جماعت نے کراچی کو بنانے کی بجائے اس کو بگاڑنے کا فریضہ زیادہ بہتر طور پر انجام دیا ہے۔ کراچی کے عوام اب تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوتے جارہے ہیں حلقہ این اے 240 کے ضمنی الیکشن کے نتائج اس کا آئینہ دار ہیں جہاں 10 فیصد سے بھی کم ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں۔ کراچی کو مسائل سے نجات دلانے کے لیے اب ایک بڑی سرجری اور اہم فیصلوں کی ضرورت ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے دو دارالحکومت ہیں۔ اگر کسی کو نیا صوبہ بنانے پر اعتراض ہے تو کراچی کو اسلام آباد کے ساتھ دوسرا دارالحکومت بنایا جاسکتا ہے۔ ہم اسے ملک کا معاشی دارالحکومت بھی قرار دے سکتے ہیں۔ یہ یقیناؐ ایک مشکل فیصلہ ہوگا لیکن اس سے کراچی کے احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا اور مسائل زیادہ بہتر طور پر حل ہوسکیں گے۔