چین کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ اپنے ماحولیات کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے جاری کوششوں کو مزید آگے بڑھانے کی خاطر ملک بھر میں مزید لو کاربن رہائشی آبادیوں کو فروغ دے گا۔ اس ضمن میں کوشش کی جائے گی کہ شہریوں میں ماحول دوست تصورات کو بھرپور طور پر فروغ دیتے ہوئے اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ کم کاربن زندگی کو اپنائیں۔اسی حوالے سے چین کی ہاؤسنگ اور شہری و دیہی ترقی کے حکام نے باضابطہ ایک منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت 2030 تک، تقریباً 60 فیصد شہری آبادیوں کو ”گرین کمیونٹیز” میں ڈھالا جائے گا اور شہریوں کو وہ تمام سہولیات اُن کی دہلیز تک پہنچائی جائیں گی جس سے گرین طرز زندگی اختیار کرنے میں مدد مل سکے۔
ایسی کمیونٹیز کے رہائشیوں سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ کم توانائی صرف کرنے والے گھریلو آلات اور ”سنگل یوز” ہونے والی مصنوعات کم سے کم استعمال کریں، روزمرہ کی زندگی میں بجلی کی بچت کریں اور نئی توانائی والی گاڑیوں کا انتخاب کریں۔ کم کاربن طرز زندگی کو فروغ دیتے ہوئے 2025 تک ملک کی تمام نئی شہری عمارتیں گرین بلڈنگ کے معیار کے مطابق تعمیر کی جائیں گی۔ ملک میں تمام شعبہ ہائے زندگی کی مشترکہ کوششوں سے، شہری اور دیہی علاقوں میں 2030 سے قبل ”کاربن پیک” کا ہدف حاصل کیا جائیگا۔چین پہلے ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلان کر چکا ہے کہ وہ 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ پیک اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ چین میں” لو کاربن” ہر گز کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ملک میں 2013 میں کم کاربن کا قومی دن متعارف کروایا گیا تھا جسے تقریباً ایک دہائی ہو چکی ہے۔اس دن کا مقصد موسمیاتی تبدیلی اور لو کاربن ترقیاتی پالیسیوں کے بارے میں آگاہی کو فروغ دینا، عوامی شرکت کی حوصلہ افزائی کرنا اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ملک کے عزم کو مزید مضبوط کرنا ہے۔اسی خاطر چین نے حالیہ برسوں میں کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں، صاف توانائی کے ذرائع کی ترقی میں تیزی لائی ہے اور آج قابل تجدید وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
چین کی کوشش ہے کہ ملک میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار کو 2021 سے 2025 تک مجموعی بجلی کی کھپت کے نصف سے زائد تک لایا جائے۔یہ ایک ارب ٹن معیاری کوئلے کی بچت کے برابر ہے۔ ملک کے 14ویں پانچ سالہ منصوبے (2021-2025) کے دوران، قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے ملک کی سالانہ بجلی کی پیداوار 3.3 ٹریلین کلو واٹ فی گھنٹہ تک پہنچ جائے گی۔ اس ضمن میں ایک جامع منصوبہ قابل تجدید توانائی ذرائع جیسے ونڈ، سولر، بایوماس اور جیوتھرمل توانائی کے لیے ترقیاتی حکمت عملیوں کا خاکہ پیش کرتا ہے تاکہ کیمیائی پیداوار، کوئلے کی کان کنی اور نقل و حمل جیسے شعبوں میں گرین ہائیڈروجن کے استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔ چین اسٹوریج سہولیات کی تعمیر میں بھی تیزی لائے گا اور اپنے پاور گرڈز کو انٹیلی جنٹ افعال سرانجام دینے کے لییخاص طور پر اپ گریڈ کرے گا تاکہ صاف توانائی کی ترقی میں سہولت فراہم کی جا سکے۔
چینی حکام کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ توانائی کا شعبہ سبز اور کم کاربن ترقی کو فروغ دینے میں اہم ترین محاز ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر کوئلہ، بجلی، ایندھن، گیس اور صاف توانائی بشمول ہوا سے توانائی اور شمسی توانائی پر مشتمل ایک متنوع توانائی کی فراہمی کا نظام بنیادی طور پر تشکیل دیا گیا ہے۔
مستقبل قریب میں نئی انرجی اسٹوریج، توانائی کے نظام کی ضابطے کی صلاحیت کو بہتر بنانے اور توانائی کے نظام کی ڈیجیٹل تبدیلی اور اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں گی۔چین کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے حالیہ اقدامات کو دیکھ کر امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرتے ہوئے لو کاربن ترقی کے راستے پر مزید عمدگی سے گامزن رہے گی اور اپنی ماحول دوستی کو دیگر دنیا کے لیے ایک قابل تقلید مثال بنائے گی۔