پاکستان کے نامور سیاست دانوں میں سے ایک تابندہ نام، اسلام پسند، باوقار، باعزت شخصیت، امیر جماعت اسلامی سراج الحق خان ہیں۔ آپ 5 ستمبر 1962ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں پیدا ہوئے ( کچھ جگہ پر آپ کا کی تاریخ پیدائش 5 اپریل 1965ء بہ مقام ضلع چارسدہ لکھی گئی ہے )۔ ابتدائی تعلیم اپنے خطے کے سرکاری ہائی اسکول سے حاصل کی۔ آٹھویں جماعت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیارکی اور آپ کی قائدانہ صلاحیتوں اور فرض شناسی کی وجہ سے آپ کو کچھ عرصے بعد ہی ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ اے ایجوکیشن کیا تعلیم مکمل کی۔ آپ کی شخصیت کا نمایاں پہلو سادہ مزاجی اور انسان دوستی ہے۔ آپ پاکستان میں اسلامی شریعت کی بنیاد پر اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سود کے مخالف ہیں اور یہی وجہ ہے آپ پہلے پاکستانی سینٹر اور صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں جن کا کسی بھی بنک میں اکاونٹ نہیں ہے۔
سراج الحق صاحب اردو، پشتو، انگریزی اور دیگر زبانوں پر عبور رکھتے ہیں مگر اظہار خیال کے لیے اردو اور پشتو کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔ آپ اسلامی جمعیت طلبہ کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اور محنت و جفاکشی سے کام کیا اور PK 55 کےحلقہ سے پہلی بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2003ء میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کےامیر مقرر ہوئے۔ اپریل 2009ء میں سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے مرکزی نائب امیر مقرر کیا اور مارچ 2014ء میں آپ کو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کیا گیا اور اب دوبارہ سب ارکان نے آپ کا انتخاب کیا ۔
2013ء کے انتخابات میں جب خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پاکستان کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اس وقت آپ کو سینئر وزیر اور وزیر خزانہ مقرر کیا گیا۔ اس دوران بطور وزیر ان کا دروازہ بلاتفریق مذہب و مسلک اور سیاسی وابستگی کے ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہا۔ آپ نے سول سیکریٹریٹ میں خطبہ بھی دیا اور نمازوں کی امامت بھی کی اور ایک مثال قائم کی۔ آپ نے بہ حیثیت سینئر وزیر اور صوبائی وزیر خزانہ اندرون اور بیرون ممالک بہت سے سفر کیے جن میں برطانیہ، سعودی عرب، قطر، ترکی، متحدہ عرب امارات، جاپان، نیپال، سری لنکا، کویت، مصر، چین، ناروے، جرمنی اور کئی دیگر مغربی ممالک کے دورے کیے مگر قومی خزانے کو قومی امانت سمجھا۔ بغیر کسی پروٹوکول کے پبلک ٹرانسپورٹ کا انتخاب کرتے اور رہائش گاہ کے لیے ہوٹلوں کے بےتحاشہ سرکاری اخراجات چھوڑ کر اسلامک سنٹرز میں رہنا پسند کرتے۔ دو بار وزیر خزانہ رہے مگر صادق و امین کہلائے۔ بطور وزیر جو انھیں سرکاری رہائش گاہ ملی اسے پبلک سیکرٹریٹ بنا دیا جہاں آدھی رات کو بھی لوگ آتے جاتے رہتے۔ اپنے ایک خاندانی گھر کے علاوہ ان کا کوئی اور گھر نہیں اور نہ ان کے پاس کوئی ذاتی گاڑی ہے۔ کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ایسا لیڈر کہیں نظر نہیں آئے گا۔ سادگی پسند طبیعت کے مالک، متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے سراج الحق نے نظریاتی سیاست پر اپنی زندگی بسر کی۔ سراج الحق وہ واحد پاکستانی سیاست دان ہیں جن کو سابق چیف جسٹس نے صادق و امین کہا۔
آپ کی چھوٹی صاحبزادی فاطمہ نے جب آپ کا انٹرویو کیا اس میں کچھ دلچسپ سوالات کیے اور پوچھا کہ آپ کو اس دنیا میں سب سے اچھی چیز کون سی لگتی ہے؟ آپ نے جواب دیا ،سب سے اچھا ہمارا دین ہے جس نے ہمیں شعور دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اللہ کو جانتے ہیں اور جو دنیا اور آخرت میں ہماری کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اور جب ٹیڑھی ٹوپی کی حقیقت پوچھی تو آپ نے کہا، میں جب پانچویں کلاس میں تھا تو ایک روز وہاں برف باری ہوئی تھی مجھے اسکول جارنا تھا لیکن میری چپل نہیں تھی اس لئے میں نے اسکول جانے سے انکار کیا پھر میری ماں نے میرے سرپر ٹوپی ٹیڑھی رکھی اور مجھ سے فرمایا کہ اب لوگ آپ کے پاؤں کی طرف نہیں دیکھیں گے۔ اور میں پھر اسکول چل پڑا اس وجہ سے میں ٹیڑھی ٹوپی پہنتا ہوں ظاہر ہے جس طرح ماں نے مجھے ٹوپی دی تھی جس طرح رکھی تھی تو یہ ایک یادگار ہے ماں کی ۔
سراج الحق صاحب یقینا ایک عہد ساز شخصیت ہیں جنھوں نے زبانی نہیں عملی کام کیا۔ ہمیشہ آپ نے پیسے کی بجائے انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی۔ مجھے امید ہے یہ ابھرتا ستارا ہمیشہ سیاست کے میدان میں بھی ایک مثال بنے گا اور ہمارے لیے بھی ایک مثال ہے جس نے وسائل کی کمی اور مسائل کی شدت کو کبھی محسوس نہ کیا اور اپنی محنت اور فرض شناسی سے اپنا مقام بنایا ۔