اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ایک معجزہ تھی۔ 90,100 سال کی عمر میں اولاد ہونا یقینا نا قابل یقین حقیقت ہی تھی لیکن ایسا ہوا۔ زکریا علیہ السلام ہوں یا ابراہیم علیہ السلام، کسی نبی نے اولاد کی تمنا محض نعمت کے حصول کے لئے نہیں کی بلکہ انہیں ایک نیک وارث کہ چاہ تھی جو مشن کو جاری وساری رکھے۔
ابرہیم علیہ السلام کو اگر چہ ان کی پہلی بیوی سارہ کے بطن سے اسحاق علیہ السلام کی صورت میں وارث مل چکا تھا، لیکن ہاجرہ کو اللہ تعالیٰ نے کسی عظیم کام کے لیے چنا تھا اور اسماعیل علیہ السلام کو بھی ایک مشن کے لئے رب العالمین نے منتخب کر لیا، وقت پیدائش ہی سے ان کی تربیت شروع ہو گئی، باپ نے حکم الٰہی کی تعمیل میں انہیں بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑا تو ماں نے بھی شوہر کے مشن میں مکمل حصہ لیتے ہوئے شوہر کی اطاعت کو رب کی اطاعت سمجھا، بھوک و پیاس سے کئی بچے کلباتے ہوں گے، لیکن زمزم کا معجزاتی چشمہ اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑنے پر ہی جاری کیا گیا، یقینا اس معجزے کا محرک یہ بچہ کوئی عام بچہ نہیں تھا، ایک عظیم نبی کا کد امجد تھا۔
پر مشقت دور کے بعد اللہ تعالٰی اسماعیل علیہ السلام کو ایک عظیم قربانی کے لئے چن لیا، اسماعیل علیہ السلام نے والد کے خواب پر سر تسلیم خم کیا اور ذبح ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ بنی اسرائیل میں بے شمار نبی آئے، بنی اسرائیل خود کو اللہ کا چہیتا کہتے تھے لیکن اللہ کو ان کا تکبر توڑنا ہی تو مطلوب تھا، اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کو اسی مقصد کے لئے تو تیار کیا تھا۔ کعبہ کی تعمیر بھی اسی مشن کا حصہ تھی۔ اللہ نے اسماعیل کی نسل سے نبی آخری الزماں کو بھیج کر جانچنا تھا کہ ہدایت کا حقیقی طلبگار کون ہے۔ یہودی و عیسائی جو نسلی تعصب کا شکار تھے، ان میں سے کھوٹے اور کھرے کو الگ کرنا تھا اور مشرکین عرب جو ابراہیم علیہ السلام کو جد امجد مانتے تھے ان کو بھی جانچنا تھا کہ اسماعیلی کی نسل سے اٹھنے والے اس نبی کی کتنی تائید و حمایت کرتے ہیں۔
گویا اسماعیل کو جو آداب فرزندی سکھائے تھے، وہء آداب، وہی اطاعت، وہی خود سپردگی اللہ کو مطلوب تھی، آزمائش میں پورا اتر کر اسماعیل علیہ السلام سر خرو ٹھہرے، ان کے باپ کی دعا قبول ہوئی، انہیں متقین کا امام چن لیا گیا،۔ بنی اسرائیل سے امامت کا منصب سلب کر کے اسماعیلی نبی اور ان کی امت کو دے دیا گیا۔ اسماعیل نے اپنے آپ کو اس انعام کا حقدار ثابت کر دیا تھا۔ ان کی نسل کو بھی میرٹ کی بنیاد پر امامت کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔
آداب فرزندی پر پورا اترنے والے افراد اور شہادت حق کا فریضہ ادا کرنے والے افراد ہی اسماعیلی مشن کے لئے مطلوب ہیں ۔ ووٹ بھی ایک امانت ہے، اسے ان افراد کے سپرد کیجئے جو آداب فرزندی پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہیں۔ اللہ ہمیں اسماعیلی آداب سے بہرہ ور فرمائے اور اقتدار کے ایوانوں میں اسماعیلی فرزندوں کو غالب فرمائے۔آمین۔