عہد حاضر میں ڈیجیٹل معیشت ایک ناگزیر رجحان بن چکا ہے اور دنیا بھر کے ممالک معاشی ترقی کے لیے ڈیجیٹلائزیشن میں سبقت کے لیے کوشاں ہیں۔ تکنیکی جدت اور ڈیجیٹل معیشت سے جنم لینے والی نئی تیز رفتار پیداواری صلاحیت مختلف ممالک میں صنعتوں کو ازسرنو ترتیب دے رہی ہے اور ”ڈیجیٹل معاشی وسائل” سے ہم آہنگ ممالک کو معاشی پہلووں کے اعتبار سے کمزور ممالک پر واضح برتری حاصل ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹلائز معیشت کا موجودہ انقلاب حکومتوں، معاشروں، کاروباری اداروں اور افراد کے درمیان تعلقات کو بھی ازسرنو متعین کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج اسے ترقی کے ایک نئے عنصر کے طور پر اعلیٰ معیار کی ترقی اور مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے کا اہم محرک قرار دیا جا چکا ہے۔
ڈیجیٹل معاشی ترقی کی مزید بات کریں تو اس میں چین جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، نمایاں طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ چین کی ڈیجیٹل معیشت نے حالیہ برسوں میں تیزی سے توسیع کی ہے اور اس کا پیمانہ 2012 میں 1.65 ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر 2021 میں 6.72 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو ڈیجیٹل معیشت میں چین کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چین کی جی ڈی پی میں ڈیجیٹل معیشت کا تناسب 21.6 فیصد سے بڑھ کر 39.8 فیصد ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے مستقبل کی منصوبہ بندی اور موجودہ تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں بھی زبردست تیز ی لائی ہے۔ مئی کے آخر تک، ملک میں دنیا کی سب سے بڑی اور تکنیکی طور پر جدید ترین نیٹ ورک کی سہولیات تعمیر کر لی گئی ہیں، جس میں پریفیکچر کی سطح کے شہروں تک فائبر آپٹک نیٹ ورکس کا احاطہ کیا گیا ہے اور 1.7 ملین فائیو جی بیس سٹیشن تعمیر کیے جا چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ چین نے توانائی، طبی دیکھ بھال، نقل و حمل، تعلیم اور زراعت جیسے شعبوں کے ساتھ بگ ڈیٹا، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت کے انضمام کو بھی تیز کیا ہے۔یہ بات بھی غیر معمولی ہے کہ ملک میں 2021 میں، بڑے الیکٹرانک انفارمیشن مینوفیکچررز کی ویلیو ایڈڈ پیداوار میں سالانہ 15.7 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو ایک دہائی میں ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جبکہ سافٹ ویئر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور متعلقہ خدمات کی آمدنی میں بھی ”ڈبل ڈیجٹ” کی نمو درج کی گئی ہے۔
عالمی سطح پر بھی ڈیجیٹلائزیشن کو آگے بڑھانے میں چین کا ایک کلیدی کردار ہے جو اس وقت تکنیکی وسائل سے بھرپور ملک ہے۔ مشترکہ خوشحالی چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کا بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد پر ڈیجیٹلائزیشن عوامی خدمات کے اشتراک کو تیز کرنے، ماحولیاتی سبز تبدیلی کو فروغ دینے اور سماجی گورننس کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ چین کے تناظر میں عالمی برانڈز کے لیے ڈیجیٹل کھپت میں بے مثال مواقع بھی موجود ہیں، بالخصوص چین میں مارکیٹ کا وسیع پیمانہ، سپلائی چین اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اُن کے لیے انتہائی سودمند ہے۔اسی طرح 2021 میں چین میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن میں بھی نمایاں طور پر تیزی آئی ہے اور غیر ملکی برانڈز چینی ڈیجیٹل کنزیومر مارکیٹ کے بارے میں مزید جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہی چیز انہیں ڈیجیٹل ایکسپوز، کانفرنسز اور نمائشوں میں بھی کھینچ کر لاتی ہے تاکہ چینی منڈی میں پائے جانے والے مواقع سے انہیں مزید آگاہی مل سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹلائزیشن اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھانے میں مددگار ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اداروں کو کاروباری ماڈل میں جدت اور صنعتی ماحولیات کی تعمیر نو کے حصول کے قابل بناتی ہے۔ مثال کے طور پر، روایتی مینوفیکچرنگ اور زراعت کی صنعتوں میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کو تیز کیا جا سکتا ہے اور ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے مشترکہ خوشحالی کے لیے صنعتی بنیاد کو مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں بگ ڈیٹا کو اعلیٰ معیار کی اقتصادی ترقی کا ایک نیا ڈرائیور بنایا جا سکتا ہے، پلیٹ فارم اکانومی کی پائیدار اور صحت مند ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے، مختلف خطوں اور گروہوں کے درمیان ڈیجیٹل خلیج کو مؤثر طریقے سے کم کیا جا سکتا ہے، اور اعلیٰ معیار کی ترقی اور اعلیٰ معیار کی زندگی کی بہتر حمایت ممکن ہے۔ چین کی کامیاب مثال ہمارے سامنے ہے جہاں صنعت، توانائی، نقل و حمل جیسے کلیدی شعبہ جات میں ڈیجیٹلائزیشن کو آگے بڑھایا جا رہا ہے تاکہ کاروباری اداروں کے اخراجات میں کمی، معیار اور کارکردگی کو بہتر بنانے اور سبز ترقی حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ اس کے علاوہ چین نے ٹیکنالوجی کی بدولت ڈیجیٹل صنعت کاری اور صنعتی ڈیجیٹلائزیشن کو فعال طور پر فروغ دیا ہے اور معاشی اور سماجی ترقی کے ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے گہرے انضمام کو فروغ د یا ہے جو ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک اہم سبق ہے۔