پھوپھو! بہت زبردست خوشبو آرہی ہے، حمنہ نے کچن میں داخل ہو کر سائرہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
سائرہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ہاں ہاں بھئی اتنے دل سے جو بریانی بنائی ہے میں نے اچھا اب سلاد بنانے میں میری مدد کرو لائٹ جانے کا ٹائم ہونے والا ہے۔
اچھا آپ کی طرف کتنی دیر کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے؟ حمنہ نے سوال کیا۔
سائرہ نے کباب کی ٹرے حمنہ کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ پہلے تو بہت ہی برا حال تھا، لیکن جب سے جماعت اسلامی والوں نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کیا جب سے ڈھائی گھنٹہ کم ہو گیا ہے،
تو کیا پھوپو آپ بھی گئی تھیں ان کے دھرنوں میں؟ ارحم نے سوال کیا ۔
نہیں میں تو نہیں گئی تھی میں اس سیاست میں کہاں پڑتی ہوں ،گھر کے کاموں سے ہی فرصت نہیں ملتی، ہمارے گھر کے سامنے ہی کے الیکٹرک کا آفس ہے نا اس لئے میں یہاں کھڑکی سے ہی دیکھ رہی تھی۔ لیکن میں ایک بات سوچ رہی تھی کہ تھوڑے سے لوگ نکلے اور تھوڑا مسئلہ حل ہوا سارے ہی لوگ اس مسئلہ پر ہم آواز ہو کر نکلتے تو شاید یہ مسئلہ جڑ سے ہی ختم ہو جاتا ہے
ارے پھوپھو ان دھرنوں سے کچھ نہیں ہوگا ان لوگوں نے مہنگائی کے خلاف بھی ٹرین مارچ کیا تو کون سا مہنگائی کم ہوگئی ؟ ارحم نے کہا۔ ارحم تمہارے دادا ہمیں ایک کہانی سناتے تھے جو آج میں تمہیں سناتی ہوں۔
ایک بادشاہ نے شہر کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا اونچا برتن رکھوا دیا اور حکم دیا کہ میرے لئے سب اس میں ایک ایک جگ شہد کا ڈالیں گے اور صبح میں اس کو دیکھوں گا اور یہ بھرا ہوا ہونا چاہیے تمام لوگوں نے رات بھر اس برتن میں اپنے اپنے حصے کا شہد ڈالا جب صبح بادشاہ نے دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ برتن شہد سے نہیں پانی سے بھرا ہوا تھا، ہوا کچھ یوں کے ہر بندے نے یہ سوچا کہ سب تو شہد ڈالیں گے میں اپنے حصے کا نہیں ڈالوں گا تو کیا ہوا کسی کو پتہ نہیں چلے گا لہٰذا میں پانی ڈال دیتا ہوں اور یوں وہ برتن شہد کے بجائے پانی سے بھر گیا۔
بس یہی حالت بحیثیت مجموعی قوم ہم سب کی ہے، میں بھی ووٹ نہیں ڈالتی تھی یہی سوچتی تھی کہ میرے ووٹ ڈالنے سے کون سا نظام نے بدل جانا ہے جیسا ہوتا آیا ہے ایسا ہی ہوگا آئندہ بھی لیکن اب میں نے یہ سوچا ہے کہ نہیں میں خود بھی ووٹ ڈالوں گی اور دوسرے لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کروں گی کہ ووٹ ڈالیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو ہم عام عوام کے مسائل سے آگاہ ہوں اور ایسی ٹیم رکھتے ہوں جو ان تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
جی پھوپو یہ بات تو آپ نے بالکل ٹھیک کہی،، میں نے بھی فیس بک پر دیکھا ہے حافظ نعیم الرحمن جو جماعت اسلامی کراچی کے امیر ہیں دلائل سے بات کرتے ہیں، ساری کیلکولیشن ہوتی ہے ان کے پاس میں تو جماعت اسلامی کو صرف ایک مذہبی پارٹی ہی سمجھتا تھا لیکن ان کی بات سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کا بھی بخوبی علم ہےان لوگوں کو، اور ایک عام آدمی کے مسائل کا بخوبی اندازہ ہے انہیں
سائرہ نے کہا ! تو پھر اب کیا ارادہ ہے !
حمنہ اور ارحم دونوں نے اس بات کا عزم کیا کے اب ہم اپنا اور اپنے شہر کا مستقبل بہتر بنانے کے لئے اس بار خود بھی ووٹ ڈالیں گے اور اپنے دوستوں رشتہ داروں کو بھی اس بات پر آمادہ کریں گے کہ صحیح لوگوں کو منتخب کر کے اس شہر کی تعمیر اور ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں-