سدرہ بھابھی ! آپ کا بکرا ماشاءاللہ کتنا خوبصورت اور کتنا بڑا ہے۔ اتنا بڑا قد ہے اس کا ماشاءاللہ ! کب اور کتنے کا خریدا ہے؟
نائلہ نے پڑوسن کا بکرا دیکھ کر سراہتے ہوئے دریافت کیا۔
یہ بھی دیکھو، یہ ہمارا بکرا ہے۔ سدرہ کی دیورانی شازیہ بھابھی نے بھی انٹری دیتے ہوئے سیاہ اور سفید بکرے کی طرف اشارہ کیا۔
شازیہ بھابھی ! آپ کا بکرا بھی بہت شاندار ہے ماشاءاللہ ! لگتا ہے دونوں بھائیوں نے بکروں کی جوڑی خریدی ہے۔ نائلہ نے مرعوب سے لہجے میں کہا۔
جی ہاں ! کل رات ابو (سسر)، میرے میاں اور دیور مویشی منڈی سے بکرے خرید کر لائے ہیں اور ہمارا بکرا ایک لاکھ بیس ہزار روپے کا آیا ہے۔ سدرہ نے جوش و خروش سے متکبرانہ انداز میں جواب دیا۔ اس کے لہجے میں رعونت کی خو شبو دوسرا بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔
ہمارے بکرے کی قیمت بھی اتنی ہے۔ کل پوری منڈی گھوم پھر کر کئی گھنٹے لگا کر ہمارے مرد بکروں کی بہترین اور شاندار جوڑی خرید کر لائے ہیں۔ ایک ایک بکرا لاکھوں روپے کا ہے۔ شازیہ بھابھی نے بھی بڑے فخر سے کہا ۔
ہم نے بھی کل رات بکرا خریدا ہے لیکن آپ لوگوں کے بکروں کے مقابلے میں ہمارا بکرا چھوٹا لگتا ہے۔ نائلہ نے بتایا۔
ہم ابھی تمہارے گھر آئیں گے بکرا دیکھنے کے لیے۔ سدرہ نے کہا۔ ضرور آئیں بھابھی۔ نائلہ نے خوش دلی سے کہا۔
تھوڑی دیر بعد سدرہ اور شازیہ نائلہ کے گھر گئیں جو بالکل پڑوس میں ساتھ ہی تھا تو سدرہ نے ان کا بکرا دیکھ کر کہا۔ تمہارا بکرا ہمارے بکروں کے مقابلے میں کتنا چھوٹا سا لگ رہا ہے۔ ہمارے بکروں کی تو کیا شان ہے، کتنی خوبصورتی ہے ان کی۔
جی بھابھی ! قربانی کے جانور اتنے مہنگے ہیں لیکن ہم نے اپنی گنجائش دیکھ کر الحمد للّٰہ قربانی کا جانور خرید لیا ہے۔ ورنہ مجھے تو یہ لگ رہا تھا کہ شاید ہم اس سال قربانی نہ کر سکیں۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بکرا خریدنے کے لیے وسائل مہیا کر دیے ہیں۔ نائلہ نے سادگی سے کہا۔
بالکل ! نائلہ صحیح کہہ رہی ہے۔ نائلہ کی ساس نے ان کی طرف آتے ہوئے کہا۔
نائلہ ! تم لوگوں کا بکرا تو اتنا چھوٹا ہے، اس کا آخر کتنا گوشت نکلے گا؟ یہ تو صرف تمہارے گھر والوں کے لئے کافی ہو گا۔ تم لوگ گوشت کیا بانٹو گے؟ شازیہ نے بھی طنز کیا۔
یہ کتنا مریل سا بکرا ہے۔ اس کا صحیح طرح خیال رکھو۔ کہیں عید سے پہلے ہی مر مرا نہ جائے۔ سدرہ نے بظاہر طنزیہ ہمدردی سے کہا۔
نائلہ اور اس کی ساس کو یہ باتیں کافی ناگوار گزر رہی تھیں لیکن وہ تحمل سے برداشت کر رہی تھیں۔
ایسے تو نہ کہیں۔ ہم اس کا بہت خیال رکھ رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ تو انسان کی نیت اور تقویٰ دیکھتا ہے۔ نائلہ نے دکھ سے کہا۔
میرے میاں کئی دفعہ عید الاضحی کی نماز پڑھ کر واپسی پر قربانی کا جانور خریدتے تھے جو نسبتاً کم قیمت پر مل جاتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت بیوپاریوں کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح جانور بیچ دیں تاکہ انہیں پورا سال نہ سنبھالنے پڑیں۔ ہم تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس نے ہمیں قربانی کی توفیق عطا کر دی ہے۔ نائلہ کی ساس نے شکر گزاری کا اظہار کرتے ہوئے بتایا۔
ہمارے بچے کہہ رہے تھے کہ آج شام کو ہار پھول لاکر بکروں کے گلوں میں اور پاؤں میں گھنگرو ڈالیں گے اور انہیں مہندی لگا کر سجا سنوار کر رکھیں گے۔ بچے اپنے دوستوں میں اپنی ناک اونچی کرنے کے خواہش مند ہیں۔ آخر اتنے شاندار بکرے ہیں۔ ایک بکرے کی اتنی قیمت میں تو ایک گائے خریدی جا سکتی ہے۔ سدرہ نے متکبرانہ انداز میں بات جاری رکھی۔
دراصل ہمارے گھر میں چھوٹا گوشت ہی پسند کیا جاتا ہے ، اس لیے ہم نے بکرے خریدے ہیں ورنہ گائے خریدنا ہمارے لیے کوئی مشکل تو نہیں۔ شازیہ نے بڑے اسٹائل سے کہا۔
حقیقت ہے کہ جب خریدار اور بیوپاری دونوں ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نالاں نظر آتے ہوں تو ہمارے لیے اپنے اسباب کے مطابق یہ بکرا خریدنا اور اس کی قربانی کرنا بھی غنیمت لگتا ہے۔ نائلہ کی ساس نے بات سمیٹی۔
بالکل ! لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں قربانی کے جانوروں کو بھی اسٹیٹس سمبل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو ریاکاری کے ضمن میں آسکتا ہے۔ قربانی تو خالصتاً اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ اور ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق قربانی کرتا ہے۔ ہماری اتنی ہی حیثیت ہے اور ہم نے اس کے مطابق قربانی کرنی ہے ان شاء اللہ۔، نائلہ نے کھل کر پڑوسنوں پر واضح کردیا۔
اس پر ان کے منہ بن گئے لیکن اس کے بعد ان کے مزید تبصرے ختم ہو گئے اور وہ تھوڑی دیر بعد اپنے گھر واپس چلی گئیں۔
قربانی ایک مذہبی فریضہ ہے اور بنیادی طور پر ہر مسلمان اپنی مالی استطاعت کے مطابق جانور قربان کرنا چاہتا ہے۔ یہ سنت ابراہیمی کی پیروی میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر کی جاتی ہے۔ تم پریشان نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی قربانی قبول کرنے والا ہے۔ اور وہ بندے کی نیت اور عمل دونوں دیکھتا ہے۔ پڑوسنوں کے جانے کے بعد نائلہ کی ساس نے اسے قدرے پریشان اور دل گرفتہ دیکھ کر کہا۔
پھر بھی امی جان ! بہت افسوس ہوتا ہے اور دل دکھتا ہے جب لوگ اس طرح کا متکبرانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور قربانی کے جانوروں کو بھی اسٹیٹس سمبل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دوسروں کا دل دکھاتے ہیں؟ نائلہ نے قدرے ریلیکس ہوکر کہا ۔ ساس کی باتیں اس کے دل پر اثر انداز ہوئی تھیں۔
بہر حال تم دوسروں کی باتیں دل پر مت لگاؤ اور اپنے حال پر مطمئن رہو۔ بس اللہ تعالیٰ ہماری قربانی قبول کرلے۔ بس ہماری یہی خواہش ہے۔ ساس نے اسے مزید سمجھایا۔
نائلہ کا دل پر سکون ہو گیا اور وہ اٹھ کر اپنے کام کاج میں لگ گئی جبکہ اس کی ساس نے بکرے کے پاس جا کر شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ اس کے جسم پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ پھر اس کے سامنے چارہ ڈالنے لگیں۔