والد کو ابو جان کہہ کر پکارا جائے یا بابا کہ کر بلایا جائے، ابی کہہ کر مخاطب کیا جائے یا ابا جان۔۔۔ ہر لفظ ہی اپنے اندر محبت و عقیدت،نازو ادا لیے ہوئے ہے۔ جانے کیوں ڈیڈ یا ڈیڈی بولنے سے نہ زبان تر ہوتی ہے نہ جذبات کی تسکین ہوتی ہے ،عجب تشنگی کا احساس رہتا ہے۔ اور بابا کی ‘ب’ یوں ہی پرکشش اور دلکش نہیں ، اس ‘ب’ نے بہت سی ‘ب’ کو اپنے اندر سمو کر اتنی خوبصورت شخصیت کو مکمل کیا ہے ۔ یہ دراصل محبت،بے مثل،مہربان،اور خوبصورت کی کرشمہ ساز صفات ہیں جو ‘ب’ کی چھیڑ چھاڑ سے لفظ بابا میں ڈھل چکی ہیں۔
والد بننے کے ساتھ ہی قربانیوں کہ عظیم داستان رقم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کون ہے جو اپنا سارا وقت خرچ کر کے آپ کے چہرے کی خوشی خریدنے کا بے لوث جذبہ رکھتا ہے؟ کون اپنے آرام کو تج کے آپ کے آرام کے لئے بے آرام رہنے میں راحت محسوس کرتا ہے؟ بھلا کون ہے جسے آپ کی بھوک کا احساس بھوکے پیٹ مزدوری کرنے پر پھی راضی کر دتا ہے۔ کون ہے جو آپ کی راہ میں آنے والا ہر کانٹا پھول سمجھ کر چن لیتا ہے؟کون آپ کو ترقی کرتا دیکھ کر ،اپنے سے انگلی صفوں میں دیکھ کر تنگ دل ہونے کی بجائے فرحت و انبساط سے لبریز ہو جاتا ہے؟ کس کی تھپکی آپ کو دلاور کر دیتی ہے، کس کی شہ پر آپ بڑے بڑے خطرات مول لیتے ہیں ؟ آپ کہیں گے، باپ ہی ہوتا ہے ایسے۔ باپ کے بناء معاشرے میں اپنی پہچان دشوار ہو جاتی ہے، عدم تحفظ کا احساس گھیرے رکھتا ہے، بناء باپ آپ ادھورے سے ہوتے ہیں ،
لہٰٰذا باپ کی قدر کریں ،اسے آف تک نہ کہیں ،جنت کے اس دروازے کو محبت ،عقیدت،احترام سے کھولئے۔۔۔ لہجے کی سختی ہو یا رویے کی بد صورتی ۔۔ دونوں اس دروازے کو مقفل کر کے جنت میں آپ کا داخلہ مشکوک بنا سکتی ہیں۔۔۔ لہٰذا والد کو راضی رکھیے،اللہ آپ سے راضی ہو گا۔
رب ارحمھما کما ربینی صغیرا