کس کس بات پر افسوس کروں کس کس حق کا تقاضا کروں؟۔ تیزی سے دوڑتی ہوئی یہ زندگی نہ جانے کتنے لوگوں کے خواب اور خواہشات کو روند کر آگے نکل جاتی ہے۔ خواب اور خواہش پھر چلو چھوڑ دیتے ہیں یہاں تو ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوتیں ایک روٹی کے لیۓ اتنی شرمندگی اتنی ذلت اور اتنی مشکل اٹھانی پڑتی ہے۔
لباس، تعلیم، صاف پانی، بجلی، پیٹرول، گھر، گاڑی ان سب پر تو جیسے لیبل لگا دیا گیا ہے۔ تمام سہولتیں غریب کی پہنچ سے دور رکھیں سوکھی روٹی کمانا ہی مشکل بنا دیا ہے۔ ہر کوئی غریبی مٹاؤ کا نعرہ لگاتا آتا ہے اور لاکهوں غریبوں کو مٹا کر چلا جاتا ہے۔
اکثر خیال آتا ہے کہ ہم کہیں گونگے بہرے تو نہیں ہوگۓ نہ حق کہتے ہیں نہ سنتے ہیں۔ ضمیر سوئے نہیں مر گۓ ہیں۔ لوگ بھوک و پیاس سے مر رہے ہیں اور ہم بے خبر رنگوں سے بنی دنیا میں مگن ہیں۔ جو ہاتھ پھیلا کر مانگ رہے ہیں ان پر تو پھر صبر آجاتا ہے مگر سفید پوش کا کیا جو اپنی سفید پوشی میں ہی دفن ہو جاتے ہیں۔
کل ہی ایک ایسا سفید پوش دیکھا بس دل دہل سا گیا آنکھیں نم ہوگئیں۔ کریانے کی دکان پر کھڑا یہ مزدور مٹی سے اٹے کپڑوں میں کھڑا چند روپے لیئے دکان کے سب سے کونے میں کھڑا انتظار کر رہا تھا کوئی دس کلو آٹا لے رہا تھا تو کوئی تین کلو تیل دکان دار اب اس کی طرف آیا۔ مزدور آدمی نے تیس روپے کا تیل مانگا تو دکان دار نے صاف انکار کر دیا کہ کھلا تیل گھی بند ہوگیا۔ اب جو آدمی دن بھر میں تین سو سے چار سو کماتا ہو کیا اس کا حق نہیں کہ وہ بھی چند قطرے گھی تیل کھا لے۔
یہی نہیں بچت بازار جانا ہوا تو سبزی کے بھاؤ صرف حکمرانوں سے باتیں کر رہے تھے ہمیں تو منہ چڑا رہے تھے۔ ٹماٹر اچھے اور لال سو روپے کلو پھر کچے ہرے ٹماٹر 80 روپے کلو پھر آتے ہیں ہم جیسے مزدور طبقے کے لیۓ ٹماٹو کیچپ مطلب گلے سڑے ٹماٹر وہ بھی پچاس سے ساٹھ روپے کلو۔ چلو کوئی بات نہیں اسی ٹھیلے پر ایک کمزور بوڑھی عورت نے سارے اسٹینڈر کے ٹماٹروں کا بھاؤ پوچھا اور پھر پچاس روپے والے ٹماٹر میں سے صاف ٹماٹر نکالنے کی کوشش میں لگ گئی کچھ دیر بعد عورت نے تھیلی آگے کی اور پچاس روپے دے کر چلنے لگی پھر اس نے تھیلی کھولی تو دیکھا ٹھیلے والے نے بھی اپنے حصے کی کرپشن کر دی سڑے ہوئے ٹماٹر ڈال دیۓ عورت نے ایک ٹماٹر تبدیل کر لیا تو کرپٹ دکان دار کو برا لگ گیا اس نے پوری تھیلی کمزورعورت سے چھین کر ٹھیلے پر انڈیل دی اور پچاس روپے دے کر کہا۔ پچاس کے ٹماٹر لیۓ ہیں اس پر بھی اتنے نخرے۔۔۔ بھائی صاحب ! وہ پچاس روپے اس کی محنت کی کمائی ہے تمہیں بھی غریب ہی ملے ذلیل کرنے کو باقی مہنگے خریداروں کو تو اضافی ڈال کر دے رہے ہو۔
پچھلے دنوں سیل لگی تو ہم بھی چلے گۓ شیشے کے بنے بڑے سے شاپنگ سینٹر میں ائیر کنڈیشن میں تازے تازے جوتے سجے ہوۓ تھے تازے اس لیۓ تھے کے اے سی میں رکھے تھے گرمی میں رکھتے تو شاید خراب ہو جاتے۔ بہرحال پورا شاپنگ سینٹر گھومنے کے بعد جب باہر نکلے تو خالی ہاتھ گھر جانے میں شرمندگی محسوس ہوئی سو چند قدم کے فاصلے پر ایک بزرگ کولہا پوری چپل اور کھسے زمین پر سجائے بیٹھے تھے مجھے وہی باسی کھسے پسند آگۓ، چار سو پچاس روپے میں اور کیا چاہیۓ۔ تب ہی دو خاتون سن گلاسز لگائ چھوٹی بہن کی جینز پہنے کولہا پوری چپل پسند کرنے لگیں دونوں نے ایک ایک جوڑی لی اور کہا چاچا دونو ں کے چھ سو لے لو بس۔
لو بھئی یہاں بھی غریب ہی سے جوڑ توڑ ہوگا۔ بڑے بڑے شاپنگ بیگ بھر لیۓ یہ کہہ کر کہ سیل لگی ہے جس میں ایک چپل اٹھارہ سو تک کی تھی۔ مارٹ سے خریداری کرنی ہو تو ہر اشیاء کے ساتھ لکھی قیمت پر ہی صبر آجاتا ہے اور غریب کے ٹھیلے سے کچھ لینا ہو تو گنجائش چاہیئے ! واہ جی۔ پیک مونگ پھلی لینی ہوتو گھر جا کر ہی پیکٹ کُھلے گا اور اگر ٹھیلے سے لی تو دس بارہ وہیں کھڑے کھڑے کھا لو وہ بھی مفت میں۔
یہ تو غریب کے ساتھ ظلم ہوگیا۔ اگر ہم ہی ایک دوسرے کا احساس نہیں کریں گے تو کون کرے گا ؟ اس لیۓ خریدوفروخت میں نرمی اختیار کریں کوشش کریں چھوٹے دکاندار اور ٹھیلوں سے خریدیں۔ بچوں اور بزرگوں سے خاص تو پر خریداری کریں۔ بزرگ اپنے بچوں کے لیۓ حلال کماتے ہیں اور بچے کم از کم محنت تو کررہے ہیں اگر ہم ساتھ نہیں دیں گے تو وہ حرام کی طرف چلے جائیں گے۔
اسی طرح خود کو ظلم کا عادی نہ بنائيں کیوں کہ حد سے زیادہ ظلم سہنے والا بھی ظالم ہوتا ہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں یا جو آپ کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں کم از کم ان کا ساتھ ہی دے دیں۔
ہم حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ٹھیک ہے جب دل دکھتا ہے تو آہ ! تو نکل ہی جاتی ہے لیکن عوام بھی تو طاقت رکھتی ہے اسے بھی حق حاصل ہے کہ اپنا رہنما خود چُنے مگر ہم تو کبھی اس بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ اسی طرح ایک خالی ڈبے میں اگر بہت سارے پتھر ڈال کر زور زور سے ہلایا جاۓ تو آواز کس کی آۓ گی ڈبّےکی؟ نہیں ڈبّہ تو خالی اور کھوکھلا ہے اس میں شور کرنے والے اور اس ڈبے کو آواز دینے والے پتھر ہیں جنھیں بعد میں راستے میں پھینک دیا جاتا ہے۔
تو اسی طرح حکمران تو خالی آتے ہیں ڈبّےکی طرح ہم عوام ہی ان کے حق میں نعرے لگا کر اور ووٹ دے کر کرسی پر بیٹھا دیتے ہیں پھر ہم روڈ پر اور وہ کرسی پر نظر آتے ہیں۔
اپنے لیۓ ایسے حکمران چُنیں جو آپ کے درمیان ہوں آپ کے طبقے کے ہوں جو آپ کے مسائل کو نہ صرف سمجھیں بلکہ روز خود بھی ان مسائل کا سامنا کرتے ہوں پھر وہ آپ کی آواز بنیں گے خود روڈ پر بیٹھ کر آپکے حق کےلیۓ لڑیں گے۔
ووٹ ایک امانت ہے اور امانت امانت دار کو ہی دینی چاہیے جو خوف خدا رکھتا ہو۔ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں اپنے لیۓ آنے ولے مستقبل کے لیۓ۔ ووٹ ایک گواہی ہے اور جھوٹی گواہی دینا بھی گناہ ہے اسی طرح اگر آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ کسی کی مدد کرسکتے ہیں تو مدد کریں اللہ کے لیۓ کریں حق کی بات کہیں۔
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ہمیں اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرنی چاہیۓ خاص کر سفید پوش لوگوں کی۔جنھیں ان سب کی سمجھ نہیں ان کی شاید پھر بھی پکڑ نہ ہو لیکن جو ان سب باتوں کی عقل رکھتے ہیں آخرت میں ان کی سخت پکڑ ہوگی اور بے شک وہ آخری ٹھکانا ہے جہاں سے واپسی نہیں۔