گھڑی کی سوئیوں نے چند گھنٹے کی مسافت طے کی تھی!
بارہ گھنٹے پہلے ہم جیل چورنگی اور شہید ملت روڈ کے سنگم پر واقع چیز اپ ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے چیک آؤٹ کے بعد باہر بینچوں پر بیٹھے کسی بھی دردناک حادثے کے خیال سے بے نیاز گاڑی کا انتظار کررہے تھے، ماحول کی چہل پہل عروج پر تھی،
فرنچ فرائز کی مشین سے خوشبو دار بھاپ اڑاتے فرنچ فرائز نکل کر ڈسپوزیبل باکس میں منتقل ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ رہے تھے۔
گول گپے کے اسٹال پر خواتین اور بچوں کا اشتیاق دید نی تھا۔
زم زم ڈرنکس کے ٹھنڈے ٹھار دھواں اڑاتے مشروبات کا کرشمہ ہر ایک کی توجہ کا مرکز تھا۔
سامان دنیا سے لدی پھندی ٹرالیاں دھکیلتے لوگ اسٹور کے سرد ماحول سے خوش گوار موڈ میں باہر نکل رہے تھے۔
مناظر پردہ ذہن پر مذید پیچھے کی جانب سفر کرنے لگے۔ جب میں اندر موجود تھی۔ عطریات کے کاؤنٹر پر موجود یمنی عقیق کی بیش قیمت تسبیح کے بڑے خوبصورت دانوں میں سامنے کا پورا عکس نظر آرہا تھا۔جسے دیکھنا ایک دلچسپ تجربہ تھا۔
،مہنگے پرفیوم، عربی عطر، شیشے کے نازک برتنوں کے قطار اندر قطار لگے طویل ریکس کے اختتام پر جلی حروف میں بورڈ آویزاں تھے۔ ” اشیاء کے ٹوٹنے کی صورت میں جرمانہ ادا کرنا ہو گا” ایک جگہ لکھا ہوا تھا۔
نقصان کی صورت میں ادائیگی کرنا ہو گی”۔ بچ بچا کر محتاط انداز میں ٹرالی دھکیلتے ہوئے یہاں سے نکلے.۔
دوسرے دن معمول کے مطابق نئے دن کے سورج نے عمارت کو سنہری کرنوں کی قبا پہنائی تو،،،،
فلیٹس کے رہائشی بھی بیدار ہو گر اپنی روزمرہ کی زندگی میں مگن ہو گئے ہر کچن سے آتی برتنوں کی کھڑ پڑ کی آوازوں کے ساتھ ناشتہ بناتی خواتین کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔ تعلیمی اداروں میں طلباء کو روانگی کی جلدی۔ ماسیوں کی آمد کے ساتھ ہی گھروں میں صفائی کے عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔ ضعیف والدین کی ضروریات پوری کرتی بہو، بیٹیاں بھی مصروف تھیں۔ ایسے میں پڑوسی خواتین کی باہمی گفتگو کا موضوع “بچوں کی چھٹیوں کو کارآمد کیسے بنایا جائے” تھا۔ گھروں میں۔ ” آج دوپہر کھانے میں کیا پکایا جائے” کا سوال گردش کر رہا تھا۔ کوئی دن بھر کی منصوبہ بندی کی ترتیب بنا رہا تھا۔
بچوں کو چھٹیوں میں کہاں سیر کروائی جائے؟۔ دادا ابو بچوں کے مطالبے کہ عید قرباں سے پندرہ دن پہلے عید کا جانور لایا جائے!۔۔۔کسی نے کام نمٹا کر بازار جانا تھا ۔۔۔کوئی آج رات شادی کی تقریب کے دعوت نامے کی یاددہانی کروا رہا تھا۔۔۔کوئی موبائل کے نوٹیفیکیشن پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔۔۔کسی کا ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ تھا ۔۔۔ایسے میں ان دیکھی جلنے کی تیز بو نے تشویش کی لہر دوڑا دی۔۔۔بجلی اور گیس اچانک بند ہو گئی۔۔ ہر ایک دوسرے سے تصدیق کرنے میں لگا ہوا تھا ۔لیکن سب لاعلم تھے۔۔یکایک موبائل کی اسکرینیں پیغامات کی بھرمار سے جگمگانے لگیں ۔۔وہ ایک حادثے کی خبر دے رہی تھیں ۔۔۔ اسی بلڈنگ کے نویں فلور کی رہائشی میری بھانجی کی خالہ ساس نے بتایا کہ ۔۔یہ تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ مصروفیت کا وقت تھا اس لئے موبائل بھی نہ دیکھا۔۔بس اچانک کھڑکی سے باہر نظر پڑی تو حیران رہ گئی کہ نیچے سے اٹھتا ہوا سیاہ گاڑھا دھواں تیزی سے اوپرکی جانب بڑھ رہا ہے۔۔ساتھ ہی شور برپا ہو گیا۔۔۔ کہ آگ لگ گئی ہے!!۔۔دو فلور پارکنگ کے ملا کر اٹھارہ بیس منزلہ عمارت کے تقریبا آٹھ سو رہائشی لفٹیں بند ہو جانے کے باعث سیڑھیوں سے افراتفری کے عالم میں اتر رہے تھے ۔ضعیف اور بیماروں کو کرسیوں پر بٹھا کر اتارا جارہا تھا ۔۔بھرے پرے گھروں سے ایک تنکا اٹھائے بغیر بے سروسامانی کے عالم میں لوگ گراؤنڈ پر منتقل ہو رہے تھے ۔
۔چاروں اطراف سے آنے والی سڑکوں پر فائر برگیڈ کی گاڑیاں،سائرن بجاتی ایمبولینسز کی بڑی تعداد،اور اطراف کی آبادی کے رہائشی اور راہگیر رنگوں اور روشنیوں سے جگمگاتی ، مال و اسباب سے سجی سجائی دنیا کو بھڑکتی آگ کے شعلوں، دھوئیں اور راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے تھے ۔اور مجھے رہ رہ کر نازک کراکری کے ریکس پر لگے بورڈز یاد آرہے تھے۔جن پر جلی حروف میں لکھا تھا ۔۔۔نقصان کی صورت میں ادائیگی کرنی ہو گی ۔۔۔۔اب سوچ رہی ہوں ان چیزوں کا کیا حال ہو گا؟؟ اور کون ان کے نقصان کی ادائیگی کرے گا؟؟کون جرمانہ ادا کرے گا؟
نقصان بھی کس پیمانے کا ۔۔۔
ایک شخص زندگی کی بازی ہار گیا ہے
فلیٹس کے رہائشی دربدر ہو گئے ہیں
قریبی آبادی خدشات اور خطرات سے دوچار ہے
آٹھ سو لوگوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا یے۔
اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟
کیا جرمانہ وہ ادا کریں گے جنھوں نے میزنائن پارکنگ کو گودام بنایا ۔
یا وہ جو پارکنگ کی سہولت نہ ملنے پر گاڑیاں چپ چاپ باہر پارک کرتے رہے۔
آخر چپ کی بھی تو قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔
خاموشی اور عادی ہو جانا بھی تو ایک دن حساب کا کھاتہ کھولتا ہے
آج کل شہر بھر کے لوگوں کا موضوع بلند وبالا عمارتوں کے نیچے موجود ہوٹلز ، شاپنگ مالز اور ڈیپارٹمینٹل اسٹورز یا گیس سلنڈر کی دکانیں ہیں۔
کہیں لوگ احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ لیکن ایک اجتماعی دباؤ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔