جماعت اسلامی کی طرف سے خواتین فیسٹیول مقامی بینکوئیٹ میں اپنی امی کے ساتھ جانے کا موقع ملا۔ اس فیسٹیول میں حافظ نعیم الرحمٰن صاحب نے بہت متاثرکن خطاب کیا۔ ان کے الفاظ میرے دل و دماغ پر حاوی ہو گئےاور وہاں پر الگ سے نشر و اشاعت کی طرف سے لوگوں سےسوالات بھی کیے جا رہے تھے۔ مجھ سے بھی سوال پوچھا گیا،اس وقت میں تھوڑی کنفیوز ہو گئی تھی۔ پہلی دفعہ کسی کے سامنے اپنی سوچ اور خیالات کا اظہار کرنا مشکل لگا،خیر مجھ سے سوال کیا گیا اور اس وقت جو جواب میرے دماغ میں آیا میں نے کہہ دیا اور آکر اپنی امی کے پاس بیٹھ گئی۔
فیسٹیول میں حافظ نعیم الرحمان نے کراچی کے مسائل پر جو تقریر کی جس طرح ہرمسئلہ کو ڈسکس کی میں انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ الحمدللہ اس دور میں بھی اللہ رب العزت نےایسے لیڈر سے نوازا ہے۔ جو عوام کے مسائل کی تہہ تک پہنچ کرتگ و دو کرتے ہیں۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں ایسے لیڈر بھی ہیں جن کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جو آنکھیں بند کر کے کہہ دیتے ہیں کہ سندھ کو ہم نے پیرس بنا دیا ہےاب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی کہ تم نے کبھی پیرس دیکھا بھی ہے یا نہیں۔ خیر چھوڑیے انہوں نے دیکھا بھی ہےکیا ان کے دل و دماغ میں پیرس کا ایسا امیج ہے؟ سوچنے کی بات ہے یہ۔
کچھ قصور ہمارا بھی ہے۔ ہم باشعور ہونے کے ساتھ اندھےبھی ہیں کیونکہ اگر ہم ذمہ دار شہری ہوتے تو اپنے ملک و قوم کے بارے میں سوچتے۔ عصبیت کی آگ میں خود بھی جلتے رہےاور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی جلاتے رہے۔ نسلی امتیاز سندھی، پٹھان، مہاجر، بلوچی، پنجابی قومیت چھوڑ کر ایک پاکستانی ہو کر سوچتے توآج ہمارے ملک کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ ہمارے دل تعصب کے شکنجے میں جکڑے پڑے ہیں کہ پٹھان پٹھان کو ووٹ دیتا ہے،مہاجر مہاجر کو ووٹ دیتا ہے اسی طرح دیگر قومیں اپنی اپنی قوم کو ووٹ دیتی ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ہماری قوم کا بندہ آئے گا تو ہمارے مسائل حل کرے گا۔ ہماری ترقی کی راہ ہموار کرے گا۔ لیکن میں کہتی ہوں ایسا سوچنا غلط ہے۔
کیوں کہ آپ کے سامنےسندھ میں 35 سال سے سندھیوں کی حکومت ہے۔ دیہی سندھ میں آپ کو کوئی ترقی کوئی کام دکھائی نہیں دے گا۔ جس کی تعریف کی جا سکے۔ لہٰذا میری اس عوام سے درخواست ہےکہ اپنی آنکھ سے عصبیت کی پٹی اتار کرایک پاکستانی قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ اور اپنا ووٹ اہل امیدوار کو دیں تاکہ ہمارا ملک بھی ترقی کرےاور بحیثیت پاکستانی شہری کے یہ ہمارا فرض بھی ہے۔