عدل کی پہچان ترازو
میری تیری شان ترازو۔
رب کی رضا کا نشان ترازو
مسلم قوم کی آن ترازو۔
میری پہچان ترازو ہے۔ میرا انتخابی نشان ترازو ہے کیونکہ میرا اور آپ کا پیارا رب اسے پسند کرتا ہے۔ اسکی آخری اور دائمی کتاب قرآن پاک اس بات کی گواہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔ اسکا تقاضا ہے یہ کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔ انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو،(سورۃ الرحمن)
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور انکے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ (سورۃ الحدید)،وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور میزان نازل کی ہے (سورة الشوری )
قرآن کا قاری بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ میزان کیا ہے اور اُسکے نازل کرنے کا مقصد کیا ہے؟ میزان وہ معیار حق و باطل ہے جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی طرح تول کر بتادے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہاؤں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے؟ گویا کہ انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ انسانی زندگی کا نظام انفرادی اور اجتماعی طور پر عدل پر قائم ہو۔ ایک طرف ہرانسان اپنے خدا کے حقوق، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان خدا کے حقوق جن سے اسکو واسطہ پڑتا ہے ٹھیک ٹھیک جان لے اور انکو پورے انصاف کے ساتھ ادا کرے۔ دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے معاشرے میں کسی قسم کا ظلم باقی نہ رہے اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں توازن قائم ہو اور معاشرے کے تمام افراد انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور اپنے فرائض اداکریں، اسطرح معاشرے کا پورا نظام عدل پر قائم ہو جائے۔
الله تعالی نے اس کائنات کے پورے نظام کو عدل پر قائم کیا ہے۔ بے شمار ستارے اور سیارے جو فضا میں گردش کر رہے ہیں اور وہ لاتعداد مخلوقات جو اس جہان فانی میں پائی جاتی ہیں، انکے درمیان عدل و توازن قائم نہ کیا گیا ہوتا تو کارگاہ ہستی ایک لمحہ کے لئے بھی نہ چل سکتی، لہذا خالق کائنات نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ چونکہ تم ایک متوازن کائنات میں رہتے ہو جس کا سارا نظام عدل پر قائم ہے، اس لئے تمھیں عدل پر قائم ہونا چاہیئے۔ جس دائرے میں تمھیں اختیار دیا گیا ہے اگر تم اس میں ناانصافی کرو گے، جن حقداروں کے حقوق تمھارے ہاتھ میں دیے گئے ہیں، اگر تم آنکے حق مارو گے تو یہ فطرت کائنات سے تمھاری بغارت ہوگی۔
میرے عزیز ہم وطنو ! کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان میں عدل کا نظام قائم ہے؟ وہ خطہ ارضی جو مسلمانان ہند نے لا الہ الا اللہ کے نعروں کی گونج میں لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا، دنیا کا واحد ملک ہے جس کی بنیاد نظریہ اسلام پر رکھی گئی تھی۔
بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے 25 جنوری 1948 کو یوم میلاد النبیﷺ کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا پاکستان کا آئین شریعت اسلامی کے اصولوں پر مبنی ہو گا۔ یہاں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو دیدہ و دانستہ شرارت اور الجھاؤ پیدا کرنے کی خاطر یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کا آئین مبنی برشریعت نہیں ہوگا۔ اسلامی اصول زندگی آج بھی اتنے ہی قابل اطلاق ہیں جتنے چودہ سو سال قبل تھے ۔
آج قوم میں ایسے سپوت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک میں حقوق اللہ سر عام تلف ہورہے ہیں۔ انگریز کا دیا ہوا عدالتی نظام قائم ہے۔ سودی نظام نے معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ بارہا وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلے کو حکرانوں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ گویا کہ اللہ اور رسولﷺ کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ طاقتور ظالم ہے اور کمزور مظلوم۔ غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اور اشرافیہ کے خزانے بھرے ہیں ۔
میری قوم کے لوگو ! ہم جو اپنے آپ کو فخر سے مسلمان کہتے ہیں، اپنے اندر جھانک کر دیکھ لیں کہیں اس ساری خرابی کے ذمہ دار ہم خود ہی تو نہیں؟ حکمران ہمارے ووٹوں سے ہی تو منتخب ہوتے ہیں۔ ہم نے ملک وقوم کی امانتیں نااہل لوگوں کے سپرد کر دی ہیں، تو پھر اپنے رب کی نافرمانی کی سزا بھی تو ہمیں ہی ملے گی۔ آزادی کی نعمت کے حصول کو پچہتر (75) سال گزر گئے۔ زرعی، معدنی، افرادی اور ایٹمی قوت کے مالک ہونے کے باوجود ہم پسماندہ قوم ہیں۔ ہمیں کون ترقی کی منازل پر پہنچائے گا؟ خوشحالی کب ہمارا مقدر ہو گی؟ یقینا یہ کام ہم نے خود ہی کرنا ہے۔
تو آئیے میرے عزیز ہم وطنو ! اللہ کے حضور اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگیں۔ ملکی اقتدار کی باگ ڈور صالح، باکردار، باصلاحیت افراد کے ہاتھوں میں تھما دیں جو عوام الناس کے درمیان رہتے ہیں، جنکے دل عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں، جو عوام کے دکھ درد کو جانتے ہیں۔ یوں ہم قوم و ملک کی امانتیں اہل امانت کے سپرد کرکے اپنے رب کریم کو راضی کرلیں۔ وہ خوش ہو کر ہمیں قوموں کی صف میں باوقار مقام عطا کردے گا۔ کیا ہی سستا سودا ہے اگر ہم اپنے رب رحیم سے کرلیں؟۔
حرف آخر کے طور پر صرف اتنا عرض کرونگی،
غم ملت کو سینوں میں بساؤ
وجود خاک کو کندن بناؤ
پیام زندگی ہے بےقراری
تڑپ روحوں کو بسمل کی سکھاؤ۔