اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کی اصلاح کا دائرہ ہماری ساری زندگی پر محیط ہے انسانی زندگی جس قدر وسیع ہےاس کا دائرہ اصلاح بھی اپنے اندر وسعت سمیٹے ہوئے ہے یا یوں سمجھيے کہ زندگی کے وسیع وعریض بیاباں میں جہاں جہاں خودروجھاریاں اور کانٹے زندگی کو آلودہ آلام کر رہے ہیں وہاں وہاں سے انہیں اکھاڑکر ان کی جگہ پھولوں کی فضا پیداکرنا ہے۔
ایک ضابطہ حیات کے ذریعے ہم معاشرے کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ انسان اس کائنات میں اشرف وافضل مخلوق ہے۔ اس کا سر خداکے سوا کسی غیر کے اگے نہیں جھکنا چاہیے اور خدائے واحد کے آگے سر جھکانے کا مطلب یہ ہے کہ رب کائنات نے ہمارے لیے جو قوانین بنائے ہیں ان پر ہم پوری طرح کاربند ہو جائیں کیونکہ ان قوانین کی پابندی میں ہی معاشرے کی اصلاح کا راز مضمر ہے۔ اگر معاشرے کے اخلاق اچھے ہو جائیں تو ظلمت کے یہ مہیب سائے جو ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں آن واحد میں کافور ہو جائیں گے اور دنیا جو آج جہنم کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ بہشت بريں کا نمونہ بن جائے گی۔
اسلام انسان کو ہمدردی کا سبق سیکھتا ہے۔ وہ بتاتا ھے کہ بنی آدم کی اصل ایک ہے اس لیے کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر کسی گورے کو کالے پر کسی کالے کو گورے پر کوئی فضلیت نہیں، فضلیت اس کو حاصل ھے جو تقوی سے مالا مال ہے،اسلام تمام اعلیٰ اقدار کے پھولوں کا ایک چمن آراستہ کرتا ہے اور بداخلاقی کے تمام کانٹوں کو پھونک کر راکھ بنا دیتا ہے،اصلاح معاشرے میں سب سے اہم چیز حکومت کی اصلاح ہے۔ اگر حکمران بداخلاق ہوں، لیٹرے اور غاصب ہوں اور برائی کی نشرواشاعت کرنے والے ہوں تو کبھی معاشرے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
ہمارا فرض ہے کہ نیک لوگوں کی شہر شہر اور قریہ قریہ ایک جماعت بنائیں جس کا پروگرام ہی اصلاح معاشرہ ہو۔ وہ ایک ایک محلے بدی کی تمام گندگیاں اور اخلاقی خیانتیں دور کرنے کا فریضہ انجام دے۔ وہ جوے، شراب، چرس اور ہیروئن کا قلع قمع کرے۔ وہ حکام کے ساتھ مل کر بدمعاشی کا خاتمہ کرے۔ علمائے دین کو اُبھارے کہ وہ برائی کے خلاف لوگوں کو اُبھاريں۔ وہ یتموں، بیواؤں اور محتاجوں کی دستگیری کریں وہ اپنے بیت المال سے پسے ہوئے لوگوں کو اوپر اٹھائے اور دبے ہوئے لوگوں کے بوجھ کو اتار کر انہیں معاشرے میں اونچا مقام دلائے وہ ایک مشینری جذبے سے کام کرے اور لگاتار اور مسلسل محنت سے اخلاق عالیہ کی فصل اگانے اور برائی کے کانٹے چننے میں اپنا سب کچھ نثار کر دے۔