بچوں کو سکول اور میاں کو آفس بھیجنے کے بعد آج اپنا دل ناشتہ کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ سوچا کچھ دیر لان میں چہل قدمی کر لوں۔ دو چار منٹ ہی گزرے تھے کہ بیرونی دروازے کی بیل بجی اور بجتی چلی گئی۔ لپک کر دروازہ کھولا تو عائلہ سامنے کھڑی تھی۔
“آؤ آؤ اندر آجاؤ آج کیسے ٹائم نکال لیا؟”
“بس ایک پریشانی تھی”
“اچھا ۔ ۔ پہلے آرام سے بیٹھو تو بلکہ آؤ کچن میں چلتے ہیں دونوں اکٹھے ناشتہ کریں گے”
“نہیں پلیز میرے لئے تکلف نہ کرو بس میری بات سنو”
“عائلہ ! خیریت ہے نا ؟”
“ہاں ہاں خیریت ہے ۔ یہ جو Jazz کا Add ہے Super for change یہ تمہاری نظر سے گزرا ؟”
“اوہ وہ Add تو اس کی وجہ سے پریشان ہو” مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہ عائلہ ہے جو میرا مذاق اس وقت اڑاتی تھی جب جب میں فحاشی اور بیہودگی کے خلاف بولتی تھی۔
“ساجدہ! سوچو ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے یہ ایک کے بعد ایک برائی کے لئے یونہی ماحول سازگار ہوتا گیا تو سوچو ہمارے بچوں کا کیا بنے گا؟”
“آہ ۔ ۔ ۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ عوام کو روٹی دال کے چکروں میں اس طرح پھنسا دیا گیا ہے کہ انہیں ہوش ہی نہیں کہ انہی کے ووٹوں سے بننے والی حکومتیں کیا کیا قانون سازی کرتی رہتی ہیں”
“تو کیا اس چیز کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے ؟”
“جی ہاں 2018 میں آپ کے وزیراعظم عمران خان یہ قانون پاس کر چکے ہیں جس کے تحت ہر وہ پاکستانی جو خدائے واحد کی تخلیق کو چیلنج کرنا چاہے پاکستانی حکومت اس کی مکمل مدد کرے گی “
” استغفرُلله ۔ وہ کیسے ؟”
” بس نادرا میں جائے اور مرد ہے تو کہہ دے میں عورت ہوں عورت ہے تو خود کو مرد لکھوا لے ۔”
” ۔ ۔ ۔ اور پھر شیطان کس کس کو پٹی نہیں پڑھائے گا اور پھر ۔ ۔ ۔ کیا فرق رہ جائے گا قومِ لوط میں اور ہماری قوم میں ۔ ۔ ۔ ۔”
” ظاہر ہے جس عمل کو خوبصورت بنا کر پیش کیا جائے اور بڑے بڑے سرمایہ دار جس کے سپوٹر ہوں اور حکومتی سرپرستی حاصل ہو تو سلسلہ رکے گا تو نہیں نا ۔ ۔ ۔ “
“جانے اچانک یہ برائیوں کا طوفان کیسے امڈ آیا ۔ ۔ ۔ “
” خیر اب ایسا تو نہ کہو تم تمہیں یاد ہوگا کالج میں جب میں میوزک کے پروگرام کے خلاف بولتی تھی تو تم کتنا مذاق اڑاتی تھیں تب میں نے کیا کہا تھا یاد ہے ؟”
“ہائے کیا یاد دلا دیا سچی بات ہے اب اس قدر ندامت ہوتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ “
” ارے ارے ارے میرا یہ مطلب نہیں ۔ ۔ ۔ “
” ساجدہ ! مجھے اچھی طرح یاد ہے تم کہا کرتی تھیں کہ تفریح کے نام سے یہ رومینٹک فلمیں، ناچ گانے کے پروگرام، عورت کے زیرِ استعمال چیزوں کے بے ہودہ اشتہارات کا یہ سلسلہ مزید برائیوں کی راہ ہموار کرے گا ۔ ۔ ۔ تو وہی ہوا نا ۔ ۔ ۔ “
” اچھا اب سوچنا یہ ہے کہ ہم برائی کے خلاف کیا کریں کیسے کریں ۔ ۔ ۔ “
” میرا خیال ہے Jazz کے اس Add بارے لوگوں کو بتانا چاہئے کہ اس کے اندر در پردہ ایک خطرناک پیغام مخفی ہے ۔”
“ہاں جی Background میں جو پرندہ دکھایا گیا ہے اس کو LGBT کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ “
“یہ بات بہت اہم ہے کہ ہمارے بچے پھر ان کے بچے سبھی کا جینا مرنا تو اسی ملک کے ساتھ ہے تو اگر یہاں معاشرہ بے سکونی، عدم توازن، طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو گیا تو ہماری نسلوں کا کیا بنے گا ۔ ۔ ۔ ؟”
” ساجدہ ! بس ڈن ہوگیا آج سے ہم بھی چین سے نہیں بیٹھیں گی پاک وطن کی فضاؤں میں جو لوگ فحاشی اور بدچلنی کی بدبو پھلانا چاہتے ہیں۔ اپنے گندے منصوبے خوشنما نعروں کی شکل میں قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں ان سب کے ارادوں کو ہم طشت ازبام کریں گے اپنی خاطر ۔ ۔ ۔ اپنی نسلوں کی خاطر ۔ ۔ ۔ “
” ان شاءالله ۔ ۔ ۔ اور وہ تو ہم کریں گے ہی مگر اس وقت آلو کے پراٹھے ہمارے منتظر ہیں تو حاضر ہیں جناب مسز عائلہ کے ہاتھوں سے بنے مزیدار پراٹھے ۔ ۔ ۔” میری بھوک تو اب ضبط کے بندھن توڑ رہی تھی ۔ ۔ ۔
” اور مسز ساجدہ کے ہاتھوں سے بنی مزیدار کھٹی میٹھی چٹنی اور خوشبودار چائے ۔ ۔ ۔” عائلہ نے بھی کمنٹری کا حق ادا کر دیا۔
“ویسے عائلہ ! تمہاری ہمت ہے کہ جو اتنی پرمغز بات چیت کے دوران ہی ایسے خوبصورت اور مزیدار پراٹھے تیار کر لئے ما شاءالله ۔ ۔ “
“چلیں کچھ کفارہ ہی سہی طالبعلمی میں کی گئی آپ کی ہوٹنگ کا ۔ ۔ ۔ “
” ارے ۔ ۔ ۔ مائی ڈیئر چھوڑو بھول جاؤ وہ سب اور آؤ باہر لان میں دھوپ میں بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ “
” ۔ ۔ ہاں اور ناشتہ کے بعد وہیں بیٹھ کر Jazz کو ایک احتجاجی ای میل کریں ۔ ۔ ۔ “
” بلکہ اخبارات کے لئے ایک آرٹیکل بھی ابھی لکھ لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ” میں خاصی پر عزم ہو رہی تھی ۔
“میرے بڑے بیٹے نے تو دو ورقہ کی شکل میں ایک تحریر لکھی رات کو جس میں پاکیزہ اور صاف ستھرے معاشرے کی برکتیں اور بدچلنی اور بدکاری کی نحوستوں پہ بڑے موثر انداز میں روشنی ڈالی ہے اس نے ۔ ۔ ۔ “
“پھر وہ آج تقسیم کرے گا ؟”
” ہاں کہہ رہا تھا اپنی یونیورسٹی کے علاؤہ بازار جا کر بھی تقسیم کروں گا ۔ ۔ “
” ویری گڈ ۔ ۔ ۔ اور اب ۔ ۔ ۔ “
” اور اب میں چلوں بہت دیر ہو گئی سارے کام سمیٹنے ہیں جا کر “
” بہت شکریہ عائلہ ! دوبارہ ایک ایسی نشست تک کے لئے خدا حافظ “