وہ دونوں پھل کی ایک دکان پر رکے تھے اور دونوں نے پھلوں کی دو الگ الگ ڈھیریوں میں سے بہترین کو چنا تھا۔ آخر وہ دونوں کم عقل یا بچے تو نہ تھے، تازہ اور بے داغ پھلوں کی یوں بھی الگ پہچان ہوتی ہے۔ باپ، بیٹی کپڑے کی ایک دکان میں داخل ہوئے، سیلز مین مختلف سوٹ مختلف زاویوں سے دکھا رہا تھا، لیکن بیٹی کی نگاہیں تو داہنی کیبنٹ میں آویزاں سوٹوں میں سے ایک پر جم سی گئی تھیں۔ آخر برینڈڈ چیزوں کی الگ پہچان اور اٹھان ہوتی ہے۔
اسی طرح ہم میں سے ہر ایک اپنے معاملات میں نہایت touchy اور sensitive ہے، ہماری جانچتی نظروں سے اعلیٰ اور ادنیٰ کا باریک فرق بھی چھپا نہیں رہتا، استاد، وکیل، ڈاکٹر، انجینیئر حتیٰ کی مستری، مزدور اور پلمبر بھی ہم وہ hire کرنا پسند کرتے ہیں جو کم از کم درج ذیل چار خصوصیات سے متصف ہو۔
1: ماہر ہو 2: مخلص ہو 3: محنتی ہو 4: پر عزم
چودہ سو سال پہلے قریش بھی۔ ایسے ہی touchy تھے زن و زر، اور شراب و شباب کے ضمن میں۔ بلا کا تجربہ رکھتے تھے بزنس میں۔ کوئی انہیں مات دے دے ،یہ محال تھا۔ بین الاقوامی تجارت ان کا اوڑھنا بچھونا تھی اور بہترین سے بہترین اشیاء ان کا انتخاب۔ بڑے بڑے سردار، عقل ودانش کے استعارے، دور اندیش سیاستدان، جبے اور دستاروں والے، خوبرو ، بڑے جٹوں والے۔ یہ بدقسمت لوگ مگر حق و باطل کے فیصلے میں کشمکش کا شکار ہو گئے۔ ان کی دور اندیشی محض سطحی ثابت ہوئی۔ دنیا و آخرت میں سے ان کی نگاہ انتخاب متاع الغرور پر ہی ٹھہری۔ آزمائش کی بھٹی سے گزر کر دائمی انعام کو ترجیح دینے کی بجائے shortcuts پر چل کر عارضی منعفتوں کو انہوں نے دور اندیشی سمجھا۔ اس کے برعکس غریب غرباء، غلام نیز حکمت سے بہرہ ور لوگوں نے ترازو کے اس پلڑے کو پسند کیا جو بظاہر ہلکا تھا، اور ثابت کر دیا کہ اکثریت کا کھوکھلا کردار جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، جبکہ کم تعداد مگر اخلاق عالیہ سے متصف پی وزن میں بھاری ہوتے ہیں، پلڑا جلد یا بدیر ان کا ہی جھکتا ہے۔
دراصل یہ ایک ذہنی کیفیت بھی ہے اور پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی۔ حقیقت بھی ہے مگر تلخ و کڑوی بھی۔ کہ لوگ اسی پلڑے میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں جو بھاری نظر آ رہا یو، اکثریت، اکثریت کے پیچھے چلنا پسند کرتی ہے، بھیڑ چال والی کیفیت ہوتی ہے، خواہ الیکشن ہو یا کوئی اور قومی ایشو۔ یکسوئی تو جیسے ہم سے روٹھ ہی جاتی ہے ایسے مواقع پر۔ سوائے ان معدودے، خوش قسمت افراد کے، جو فرقان کی نعمت سے نواز دیئے گئے ہیں۔ یقیناً یہ نعمت توفیق الٰہی کا نتیجہ بھی ہے اور ان افراد کی یکسوئی کا نتیجہ بھی۔ اللہ کی عطا بھی ہے اور ان کی طلب و محنت کا انعام بھی۔
فیصلہ تو نہایت آسان ہے۔ صحیح پلڑے میں وزن ڈالنا چاہتے ہیں تو دیکھیں بندگی رب کے بہترین عکاس کون لوگ ہیں، صالحیت بھی دیکھیں اور صلاحیت بھی۔ بہت بار جعلی مال کی چمک دمک آپ کی نگاہوں کو خیرہ کر دے گی، لیکن مستقل مزاجی اور جہد مسلسل آپ کو کسی طوفان سے آشنا کر کے رہے گی، ان شاءاللہ۔
ترازو علامت ہے انصاف کی۔ کرپشن، بد دیانتی لوٹ کھسوٹ کے لئے خوف کی۔ باطل کے علمبرداروں کی چڑ ہے یہ علامت۔ دولتمند تاجروں، وڈہروں، کرکٹ کے کھلاڑیوں کو اسرار شہنشاہی سکھاتا یہ نشان نفاست پسند انسانوں کا نمائندہ ہے۔ بے شک شیر جنگل کا بادشاہ ہے اس کی حکومت جنگل میں ہی ہوتی ہے۔ بے شک بلا کھیل کی علامت ہے اور کھیل ہمیشہ کھیل کے میدانوں میں کیے اور کروائے جاتے ہیں،اور اقتدار کے ایوان، کھیل کے میدان نہیں ہوتے۔ بے شک تیر میدان جنگ میں چلائے جاتے ہیں ،دشمنوں کے خلاف۔ نہ کہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی طرف۔ اور نہ ہی اقتدار کے ایوانوں میں ۔
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، مشورہ ہے کہ اس بار۔ ترازو میں سب تولو۔ اور دیکھو کس کا پلڑا بھاری ہے۔
رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِینَ، وَاجْعَلْ لِیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِینَ۔