انڈین گانوں پہ تھرکتے جسم والوں۔۔شادیوں پہ ہندوانہ رسم و رواج کے شیدائیوں۔انڈین لباس زیب تن کرنے والوں۔ انڈین اداکاروں اور اداکاراؤں کے پرستاروں۔ بھارت سے دوستی کا دم بھرنے والوں سے آج ایک سوال ہے کہ کیا اب بھی انھیں بھارت سے جذباتی لگاؤ ہے؟ کیا اب بھی؟ اس ملعون عورت نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام انبیاء کے سرداد ہیں کی شان میں گستاخانہ الفاظ بکے اور ہم خاموش رہیں؟ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کی کوئی رات ایسی نہ گز ری تھی کہ وہ اپنی امت کے لیے اللہ رب العزت کے سامنے گڑگڑا کر روئے نہ ہوں۔ جن کے احسانات جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ہیں کا ایک نقطہ بھی ہم ادا نہیں کر سکتے۔ جن کی تعلیمات رشد وہدایت ہیں ہم نے بھلا دیں تو آج ہم ایسے ذلیل وخوار ہو رہے ہیں کہ اتنی ہمت بڑھ گئی ہے دشمن اسلام کی کہ ہمارے نبی کی شان میں جب جی چاہا گستاخی کر ڈالی؟ تو سوچیں کہ آج ہمارا کیا کردار ہے جو ان کی اتنی ہمتیں بڑھ گئیں۔ ہم جو قرآن و سنت کو بھلا کر ان کی تہذیب اپنائے بیٹھے ہیں تو ان کے حوصلے تو بلند ہوں گے ناں۔
ٹک ٹاک پہ وقت ضائع کرنے والوں اور اس کے پیچھے اپنی جانیں گنوانے والوں کو سوچنا ہو گا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنا قیمتی وقت امت مسلمہ کے لیے استعمال کرنا ہے اپنی قیمتی جانوں کو راہ خدا میں لٹانے کے لیے تیار رہنا ہو گا، باطل کو بتانا ہو گا کہ مسلمان سب برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہر گز نہیں۔ ذرا سوچیں کس منہ سے جائیں گے حوض کوثر پر آب کوثر پینے؟ کیا نظر ملا پائیں گے اپنے نبی سے؟ کیا جواب دیں گے انھیں؟ کہ ان کی تعلیمات کو بھلا کر دشمنوں سے دوستیاں بڑھاتے رہے؟ اپنی اقدار بھلا کر اغیار کی اپنا لیں؟ مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم جیسے بھی مسلمان ہیں اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاءاللہ ایسے حالات میں کہ جب ہمارے دل اس غم سے چور ہوتے ہیں۔ جب محمد کی محبت سے سرشار دلوں پر قیامت بیت جاتی ہے اور حکمرانوں کی بے حسی خون کے آنسو رلاتی ہے تو ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں خدا کے شیر غازی علم دین شہید، عامر چیمہ شہید، ممتازقادری جیسے روشن ستارے جگمگانے لگتے ہیں۔
افسوس ہوتا ہے ان مغرب زدہ اہل قلم پہ جو حرمت رسول پہ کمپرومائز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم تو درگزر کو پسند فرماتے تھے ؟کاش کہ وہ تاریخ اسلام سے واقف ہوتے کہ صحابہ نے کیسے شاتم رسول کی گردنیں اڑائیں اور اپنے نبی کی ناموس کی خاطر جانیں قربان کیں۔
میری گزارش ہےکہ مسلم حکمران متحد ہو کر اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ تمام ممالک کو اس بات کا پابند بنائے کہ ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے اجتناب کیا جائے اور اس کے لیے آئین میں جو سزا ہے اسے با عمل بنایا جائے۔ میری اپیل ہے نوجوان نسل سے بھی کہ اپنے کردار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ڈھال کر اتنا مضبوط بنائیں کہ آئندہ کوئی گستاخی جرات نہ کر سکے۔