حضرت ابراہیم کا لقب خلیل اللہ تھا کتنا پیارا ہے یہ لقب اللہ کا دوست دل میں طمانیت پیدا کرتا ہوا اور ایسا دوست جس نے بن دیکھے محبوب کو راضی کرنے کے لیے اپنا سب سے قیمتی سرمایہ اس کی راہ میں نچھاور کر دیا- بیوی اور نامولود بچے کو بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ کر جاتے ہیں، بیوی پیچھے آتی ہیں اور کہتی آپ ہمیں اکیلے چھوڑ کر کیوں جارہے، آپ کوئی جواب نہیں دیتے پھر بیوی کہتی یہ اللہ کا حکم ہے ! آ پ فرماتے ہاں اور بیوی (حضرت ہاجرہ) کہتی ٹھیک ہے۔
سلسلہ انبیاء میں حضرت ابراہیم کی داستان بہت دلچسپ اور قابل رشک ہے ان کے لیے اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ایک بڑی آزمائش تھی لیکن حضرت ابراہیم اس آزمائش پر پورے اترے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل سے مخاطب ہوتے ہیں کہ بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے اللہ کی راہ میں ذبح کر رہا ہوں باپ بیٹا دونوں جانتے ہیں کہ پیغمبر کا خواب اللہ کی وحی ہوتا ہے،حضرت اسماعیل کہتے پھر دیر کیا ہے جو حکم آپ کو ہوا ہے کر ڈالیے جہاں تک میرا تعلق ہے آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے- یہ مکالمے دنیا کے حسین الفاظ ہیں اگر آج ہم ان مکالموں پر غور کریں تو ہمارے اندر یہ جذبہ قربانی اور اپنے رب کی اطاعت وشکرگزاری پیداکرتے ہیں۔
مگر نہیں ہم تو دنیا میں ریس لگارہے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کےلئےکوشاں ہیں کہ میرا جانور اتنے لاکھ اور کروڑکا ہے بڑے بڑے بنگلوں میں ان جانوروں کو خوب سجاوٹ کے ساتھ رکھا جاتا کیٹ واک ہوتی اور لوگوں کا ایک جم غفیر ان کو دیکھنے آتا (یعنی نمائش ہوتی) یہ نادان سمجھتے نہیں کہ ! نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون مگر اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے- اس میں کوئی ریا کاری، نمودو نمائش اور دکھاوا نہیں ہوتا صرف رب کی رضا اور تقویٰ کا حصول ہوتا ہے، کیا جانور لیتے وقت ہمارے ذہنوں میں قربانی کا سا جذبہ ہوتا ہے، اللہ نیت دیکھتا ہے جانوروں کی خوبصورتی اور وزن نہیں دیکھتا۔ جیسی نیت ویسے اعمال، اللہ ہم سب کو اپنے دین کے لیےخالص بنائے۔