قومِ مسلم کے لیے سب سے زیادہ اذیت ناک بات آپ ﷺکی شان بلند میں گستاخی کا ہونا ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات تڑپ جاتے ہیں اور وہ غم و غصہ کے انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں جب کوئی بد بخت ایسا کرنے کی جسارت کرتا ہے توگستاخی کرنے والے کی ایک ایک سانس اُمت مسلمہ پر بھاری گزرتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مال،جان،اولاد،ماں باپ،عزت آبرو سے بڑھ کراپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے۔
جب کبھی کہیں ایسی گھٹیاجسارت ہوتی ہے تو اُمت مسلمہ کا امتحان ہوتا ہے اور دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ایک حکمران طبقے کی نا اہلی،خوف یا احتیاط اور دوسرا عام عوام کا والہانہ جذبہ عشق۔حکمران معاشی اورسیاسی مصلحتوں کے پیش نظر صرف مذمتی بیانات دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جبکہ عوام کے جذبات یہ ہوتے ہیں کہ گستاخی کرنے والے بدبخت کوفوراً کڑی سے کڑی سزا ملے ،اسے عبرت کا نشان بنایا جائے اور اس کے ملک سے بھی ہر طرح کے تعلقات ختم کیے جائیں جب تک کے وہ سرکاری سطح پر توہین کرنے والے کوقرار واقعی سزا نہ دے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی ایک لعینہ نوپور شرما نے اُمہات المومنین کے توہین آمیز ذکر کی آڑ میں نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اس گستاخ کی سزا دنیا و آخرت میں اب اس کا مقدر ہے، لیکن جن باتوں کو بنیاد بنا کر گستاخی کی گئی ہے پوری دنیا کے سامنے اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے تا کہ آئندہ کوئی ان باتوں کو دلیل بنا کر منفی پروپیگنڈہ نہ کر سکے۔
آپ ﷺکی ظاہری حیات مقدسہ کا ایک ایک قول و فعل حکمتوں سے لبریز ہے۔ آپ ﷺکی ایک ایک ادا مبارک اس مشن عظیم کی ادائیگی کا حصہ ہے جو پروردگار نے آپ کو سونپا تھا۔ قیامت تک کے لیے نافذ العمل دین کے فروغ کے لیے آپ نے بہترین حکمت عملی سے کام لیا۔اسی طرح آپ ﷺنے جتنے بھی نکاح فرمائے وہ دین اسلام کے فروغ اور مشن عظیم کے لیے معاون تھے اور وقت نے یہ ثابت بھی کیا کہ ایک ایک نکاح سے اسلام کو تقویت ملی۔ لہٰذا غیر مسلموں کی جانب سے یہ کہنا کہ آپﷺنعوذ باللہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکاح فرماتے تھے سراسر غلط ہے۔
آپ ﷺنے جس قبیلے میں نکاح فرمایا ایک وقت آیا پورا پورا قبیلہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ جیسے حضرت جویریہؓ کی مثال لے لیں۔حضرت خدیجہؓ نے فرمایا تھاکہ کسی بیٹی سے اس کے قبیلے کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا جویریہؓ سے ہوا۔حضرت عائشہؓ کے علاوہ آپ ﷺنے جتنے نکاح فرمائے وہ یا تو بیوہ سے فرمائے یا مطلقہ سے۔اور بعض امہات المومنین تو آپ ﷺکے عقد مبارک میں آنے سے قبل ایک نکاح میں رہیں ،شوہر کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح میں اورپھران کے شوہر کے انتقال کے بعد یا علیحدگی کی صورت میں آپ ﷺکے نکاح میں آئیں۔ یعنی اگر مقصد دنیاوی خواہش پر مبنی ہوتا تو آپﷺ ایک سے ایک بڑھ کر کنواری لڑکیوں سے ہی نکاح فرماتے۔اور دوسری طرف ہندو دھرم کو ماننے والی اس بدبخت کے کرشنا کی 16000 سے زائد بیویاں تھیں۔اس پر یہ ذرا آئیں ناں۔
اب ذرا امہات المومنین کے حوالے سے مختصرجائزہ لیتے ہیں۔ آپ ﷺنے پہلا نکاح حضرت خدیجہؓ سے فرمایا جب ان کی عمر مبارک 40 سال تھی جبکہ آپ ﷺکی ظاہری عمر مبارک صرف 25 سال تھی۔ان کے الزامات کے رد کے لیے ویسے اتنا ہی کافی ہے۔حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعدقبیلہ عامر بن لوی کی حضرت سودہؓ سے نکاح فرمایا۔ حضرت سودہؓ کا پہلے نکاح سکران بن عمرو سے ہوا تھا۔پھر پروردگار کی طرف سے حکم کے مطابق اوراپنے دیرینہ ساتھی اور یار غار سیدنا صدیق اکبر ؓ کی شدید خواہش کا احترام کرتے ہوئے اور خود حضرت عائشہؓ کی مکمل رضامندی سے آپ ﷺنے حضرت عائشہؓ سے نکاح فرمایا۔ آپ ﷺحضرت خدیجہؓ کو اتنا یاد کیا کرتے تھے کہ حضرت عائشہؓ کو رشک آتا تھا۔آپ ﷺنے ایک بار یہاں تک فرمایا کہ حضرت خدیجہؓ کا نعم البدل کوئی نہیں۔
اب حکمتیں کیسے ظاہر ہوئیں کہ حضرت خدیجہؓ نے اپنے مال سے مشن فروغ اسلام کو تقویت بخشی۔حضرت عائشہؓ سے نکاح کی حکمت یوں ظاہر ہوئی کہ عورتوں کے تمام مسائل کا فقہی علم آپؓ کی وساطت و فراست سے پھیلا۔آپؓ سے 2210 احادیث مروی ہیں جن میں 74 متفق علیہ ہیں۔پھر حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ جن کے شوہر غزوہ بدر میں شہید ہو گئے تھے،ان سے نکاح فرمایا۔آپؓ سے 60 احادیث مروی ہیں جن میں سے 4 متفق علیہ ہیں۔پھر ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہؓ (جن کے پہلے شوہر عبد اللہ بن جحش غزوہ احد میں شہید ہوئے )سے نکاح فرمایا۔اسی طرح حضرت ام سلمہؓ( جن کے شوہرابو سلمہؓ بھی غزوہ احد میں شہید ہوئے ) سے نکاح فرمایا۔آپؓ سے 378 احادیث مروی ہیں جن میں 13 متفق علیہ ہیں۔پھر حضرت زینب بنت جحش(جن کا پہلے نکاح حضرت زید بن حارث سے ہوا تھا اور نباہ نہ ہو سکا تھا)سے نکاح فرمایا۔آپؓ سے 11 احادیث مروی ہین جن میں 2 متفق علیہ ہیں۔حضرت جویریہؓ قبیلہ مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی تھیں۔ان کا پہلا شوہر مسافع بن صفوان غزوہ مرسیع میں قتل ہوا تھا۔آپؓ سے نکاح کے بعد پورا قبیلہ مسلمان ہوا۔حضرت ام حبیبہؓ پہلے عبید اللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں۔آپؓ سے 65 احادیث مروی ہیں،2 متفق علیہ ہیں۔حضرت صفیہؓ قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔پہلا نکاح مشکم القرظی سے ہوا۔طلاق کے بعد کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوا۔وہ خیبر میں مارا گیا۔حضرت میمونہؓ کا نکاح مسعود بن عمرو سے تھا،علیحدگی کے بعد ابودھم سے نکاح ہوا۔پھر اس کے بعد آپ ﷺسے نکاح ہوا۔
تمام تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ آپ ﷺنے کوئی بھی نکاح خواہش دنیا کے زیر اثر نہیں فرمایا بلکہ آپ ﷺکے ہر نکاح سے اسلام کو تقویت ملی۔نکاح کے ذریعے مختلف قبائل تک رسائی ملی اور پیغام حق کی ترسیل آسان ہوئی۔پھر اس معاشرے میں بیوہ اور مطلقہ کو منحوس و حقیر سمجھا جاتا تھا۔آپ ﷺنے اس غلط سوچ کا بھی رد فرمایا اور بیوہ اور مطلقہ سے نکاح کی ترغیب دی۔الغرض آپ ﷺکا ہر عمل مقدس رضائے الٰہی سے سرشار اور اسلام کی اشاعت کے لیے ہی تھا۔رہی بات آپ ﷺکی شان اقدس کی تو اس کو بلند کرنے والا خود پروردگار ہے یہ غلاظت و نجاست کے پروردہ آپ ﷺکی شان کیا جانیں۔