حدیث پاک میں ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے
شاعر نے کیا خوب کہا ہے،
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے اک فرشتہ باپ کے روپ میں
جون میں والد کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ یہ روایت 1910 میں امریکہ میں شروع ہوئی۔ کسی بھی روایت یا رواج کو غلط یا صحیح نہیں کہا جاسکتا ۔ مغربی معاشرے اور اس کی تیز رفتاری کو دیکھیں تو یہ کسی قدر ایک اچھا طریقہ ہے کہ والد کی اہمیت اجاگر کرنے کے لے ایک دن رکھا جاتا ہے۔ تحائف دیے جاتے ہیں۔ مکمل دن والد کے ساتھ گزرا جاتا ہے۔ ان کی مرضی کے کھانے بناے جاتے ہیں۔
اب بات ہمارے کالے انگریزوں (پاکستانی قوم ) کی ہم آج تک انگریزوں سے آزادی نہیں حاصل کرسکے۔ آج بھی ذہنی طور پر ان کے غلام ہیں۔ اور ہماری نوجوان نسل نے یہ غلامی کا طوق بخوشی پہنا ہوا ہے۔۔اس کی زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ کہ اس تحریر کے قارئین بھی اسی معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کا فیشن ہو یا تفریحی سرگرمیاں تمام میں اس کا عکس واضح ہے۔۔ ویسے بھی یہ قدرت کا اصول ہے غالب اقوام کا ہی سکہ رائج ہوتا ہے۔ مغلوب اقوام ان کے رواج کی پیروی کرتی ہیں۔ مگر ہم چونکہ مسلمان ہیں اور ہمارے پاس ایک پورا نظام زندگی ہے۔ ہمارے نبی کی زندگی مشعل راہ ہے لیکن بد قسمتی سے ہم نے اس کو عبادات اور وہ بھی رمضان تک محدود کردیا ہے۔
دوسرا ایک استاد نے ہماری قوم کا بہت اچھا تجزیہ کیا ہے کہ ہم نقال ہے۔ حقیقت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا جو کام کسی دوسرے کو کرتے دیکھتے ہیں وہ ہی بلا سوچے سمجھے کرنے لگتے ہیں ۔ ایک اور مفکر نے یوں دلچسپ تبصرہ کیا کہ ہم لوگ لائی لگ ہیں۔ اب بات کچھ موضوع کی جو کہ خود ایک تلخ حقیقت ہے انگریز فادر ڈے حقیقتاً مناتے ہیں اپنے والدین کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ہم صرف فیس بک کی حد تک ہیں ایک پرانی تصویر لگائی اور بس تاکہ دوست یہ نہ کہہ دیں کہ تم نے آج فادرز ڈے نہیں منایا۔
یورپ میں زیادہ تر والدین اولڈ ہاؤس یا الگ رہتے ہیں تو وہ باقاعدہ ان سے ملتے ہیں۔جب کہ ہمارے کالے انگریز ایک گھر میں رہ کہ بھی کم از کم فادرز ڈے والے دن ہی والدین کی بات مان لیں پر کہاں۔ ایک میرا آپ سے سوال کہ یہ مختلف دن منانے کا رواج ہمارے معاشرے میں کیوں عام ہوتا جارہا ہے میری ذاتی رائے ہےکہ ہم سہل پسند ہیں وٹس اپ پر تصویر لگانا آسان ہے ، روزانہ پاؤں دبانا ، اپنی زندگی ان کے تجربے کہ مطابق گزارنا کافی مشکل اور بور بھی ہے۔اور دوسرا اپنی تہذیب و ثقافت سے لاعلمی ہے۔کیا خوب فرمایا ہے اقبال نے،
اپنی ملت سے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اور اسی موضوع کی مزید وضاحت شاعر نے یوں کی
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سرا سر موم ہو جا یا سنگ ہو جا۔
میرے عزیز قارئین سازشوں کو سمجھیں اور ان فادرز ڈے ، مدر ڈے اور سموسہ ڈے سے نکلیں کیونکہ ہمارا ہر دن ہی فادرز ڈے اور مدرز ڈے ہے ہماری زندگیاں ان کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اگر میں اپنا تجربہ شیئر کروں کہ مجھے دس سال ہوگئے والد بنے ہوئے لیکن آج تک مجھے اپنے بچوں کے لیے کچھ خاص نہیں کرنا پڑا یہ میرے والدین کی برکت ہے۔
آخر میں ایک درخواست کہ اسٹیٹس لگانے سے نہیں ٹانگیں دبانے سے ثواب ملتا ہے اپنے والدین کو آن لائن نہیں بلکہ آف لائن وش کیجئے کیونکہ انہوں نے بھی آپ کو پیدا کیا ہے نہ کہ ڈاؤن لوڈ۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہم سب کے سروں پر والدین کی اس برکت کو قائم رکھے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین ۔