شہرکے اس پار ویرانے میں ایک نئی بستی نے جنم لیا۔
اتفاقاً میں وہاں کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔
اور اس آبادی کو دیکھ کر اکثر سوچوں میں گم ہوجایا کرتا تھا۔
کہ بھلا اس ویرانے میں لوگوں نے خود کو کیوں آباد کرلیا ہے؟
پھر اک دم میری سوچوں نے رخ بدلا اور حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ اس بستی میں خود تو آباد نہیں کیا ہوا بلکہ پورے گھر والے امرالہی سے یہاں کے مکین بن گئے۔
21رمضان المبارک کو اس ویرانے میں ایک مرتبہ پھر جانا ہوا۔ اب میں یہاں
کھڑاکھڑا بڑی دیر تک سوچتا رہا کہ اب اس ویرانے کے لوگوں سے روز ہی ملاقات ہوجایاکرے گی۔
یہاں اب اس ایک ہستی نے بھی خود کو آباد کرلیا ہے۔
جس کے دم سے ہمارے گھر کی ساری رونقیں وابستہ تھیں۔
جی ہاں وہ مقدس ہستی جس کے جگر کے ہم ٹکڑے تھے۔ جس کی آغوش میں ہم پلے بڑھے جس کی ممتا ہم پر پوری طرح نچھاور تھی اور ان کا سایہ ہم بادلوں کی طرح سائباں کیے ہوئے تھا۔
آہ اب اس ویرانے کے آخری کونے میں ایک مکان ان کا بھی بن گیا ہے۔
جس سے اب ہم روز اپنے دکھ باٹنے اس بستی میں جاتے ہیں۔
اب وہ خود تو منوں مٹی کے نیچے جا بسی ہیں۔
آہ ماں تو نے کتنے لاڈ و پیار سے ہمیں پالا پوسا تھا۔
اپنی زندگی کی کبھی پروا بھی نہ کی تھی کتنے جتن کاٹے تھے۔
اب روز کا معمول بن گیا ہے اس بستی میں جانے کی وجہ سے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس بستی سے مجھے محبت سی ہوگئی ہو۔
روزانہ جاکر اپنے غم کو ہلکا کرنا اب عادت سی بن گئی ہے۔
ایک روز ہم بھی اس بستی کے مکین ہوجائیں گے۔
میں جب بھی اس دہلیز پہ پہنچتا ہوں مجھے ہلکی سی تھپکی دے کر کوئی دھیمی سی آواز میں کہتا ہے آپ کی ماں نے بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے اسے اپنا ابدی مسکن بنا لیا ہے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے