سابق حکمرانوں نے جو عوامی مقبولیت پونے چار سالوں میں کھوئی، موجودہ حکمرانوں نے محض چند ماہ میں کھودی۔ شہری سمجھتے تھے کہ شاید شہباز شریف ان کے مسیحا ہیں، ان ستم ظریفوں کو غربت مہنگائی سے نجات دلائیں گے، ملک میں خوشحالی لائیں گے۔ مگر ان کی امیدوں پر اسوقت پانی پھر گیا جب پہلی بار ان پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کا بم گرایا گیا۔ موجودہ حکمرانوں کی طرف سے پے در پے مہنگائی کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں ، اگر ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا۔
حکمرانوں کی سوچ اپنی حد تک درست مگر پے درپے مہنگائی اور اشیائے خوردو نوش میں گرانی کے طوفان سے غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے طبقہ کے لیے دووقت کی روٹی کمانا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا، نفع اور مزدوری کی اجرت وہی مگر اخراجات میں مہنگائی کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، اور غریب ڈیفالٹ کرگیاہے۔ اسطرح شہباز شریف حکومت نے محض چند ماہ میں عوامی مقبولیت کھودی ہے، اگر آج عام انتخابات ہوجائیں تو حکمران طبقہ محض دس فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کرپائے گا۔ حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اس طوفانی مہنگائی کا توڑ محض دوہزار روپے ماہانہ کی بھیک سے کیا جائے گا، ان کی یہ سوچ انتہائی فرسودہ اور پوری پاکستانی قوم کو کشکول اٹھانے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔
لوگ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہیں، حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں سے بیزار ہیں، ہر گزرتے دن کیساتھ اذیت ان کی برداشت سے باہر ہورہی ہے۔ یہ درست ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہے، تیل گراں ہورہا ہے، آئی ایم ایف، عالمی بینک دباﺅ بھی ڈالتے ہیں۔ لیکن قوموں پر ایسے وقت آتے ہیں تو قومیں متبادل راستے تلاش کرتی ہیں، مہنگائی کا بوجھ بانٹتی ہیں۔ سارا بارگراں پہلے سے بوجھ تلے دبے 98 فیصد کی طرف نہیں دھکیل دیتیں۔ 98فیصدغریب پاکستانیوں کا جینا پہلے ہی بہت محال تھا اب نا ممکن ہورہا ہے، غربت کی لکیر سے نیچے ہجوم بڑھ رہا ہے۔
صرف تیل کی قیمتوں کا ہی مسئلہ نہیں، بلکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی یکم جولائی سے بڑے اضافے کی منظوری دی جاچکی ہے ۔ دوسری طرف ڈالر بے قابو اور اسٹاک مارکیٹ زوال کا شکار ہے۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے ملکی قرضوں میں اب روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے، اب تک 2500 ارب سے زائد کے قرضے صرف روپے کی قدرکی کمی کی وجہ سے قوم پر چڑھ چکے ہیں، روپے کی بے قدری کی وجہ سے اب دیگر کئی شعبوں میں بھی بحران سر اٹھانے لگے ہیں۔ کیا اتحادی حکومت سوچنے سمجھنے سے عاری ہوچکی ہے، چند ماہ بعداگست 2023 ءمیں یہ ووٹرز کے پاس کس منہ سے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی باروری سرنگوں کا بہانہ آخر کب تک چلے گا۔
مان لیا کہ وہ بارودی سرنگیں بچھا گئے، آپ تو اتنی مہنگائی کررہے ہیں اور اتنی تیزی سے کررہے ہیں کہ اپنے چلنے میں بھی مشکل پیدا کررہے ہیں۔ آپ جب تحریک عدم اعتماد لے کر آرہے تھے اور اقتدار کی مسندوں پر آپ کی لالچ بھری نظریں تھیں اسوقت آپ کو ان بارودی سرنگوں کا علم نہیں تھا۔ آئی ایم ایف سے شوکت ترین کیا باتیں کررہے تھے۔ کیامعاہدہ ہورہا تھا یہ سب آپ کے فہم میں نہیں تھا۔ کیا ملکی معیشت کو کنٹرول کرنے کا طریقہ صرف یہی تھا کہ جو آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے۔ یعنی غریبوں کو ریلیف دینے والی سبسڈیز کا خاتمہ اور ٹیکسوں کی شرح میں نہ صرف اضافہ بلکہ مزید ٹیکس بھی عائد کردیے جائیں۔
درحقیقت یہ راستہ مزید تباہی کا راستہ ہے اور بہت تیزی سے دیوالیہ پن کی طرف دھکیلنے والا بھی ہے۔ کیونکہ غریبوں کو ریلیف نہ دینے اور ٹیکسوں میں اضافے سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ زیادہ ٹیکسوں کے باعث کاروبار بھی تباہ ہو جاتے ہیں ۔ صنعتیں بند ہو جاتی ہیں اور نئی سرمایہ کاری بھی نہیں آتی۔ ویسے بھی آئی ایم ایف کو اپنے قرضوں کی واپسی سے کوئی سروکار نہیں، وہ اس سے کہیں زیادہ پیسے وصول کر چکا ہے جو اس نے ہمیں اب تک دیے ہیں ۔ وہ صرف عالمی طاقتوں کے پاکستان کے بارے میں اہداف کے حصول کے لئے حالات پیدا کر رہا ہے ۔ جب تک ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف پر انحصار کرتے اور اس کی ڈکٹیشن لیتے رہیں گے، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے بلکہ مزید دھنستے جائیں گے ۔ ہمیں دوسرے راستے اختیار کرنا ہوں گے اور ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام کے محتاج نہ رہیں۔