بھارت میں گستاخی کے واقعے کے بعد دل بہت مضطرب تھا، بے قراری اور اضطراب کی اسی حالت میں سیرت کے سنہری اوراق سے حُبِ رسول صل اللہ علیہ وسلم کے دو واقعات نظر سے گزرے، جن کو پڑھنے کے بعد خود کو کٹہرے میں کھڑے پایا حُبِ رسول کا دعویٰ کرنے والےکہاں کھڑے ہیں اور ان کی محبت کے معیار کا کیا عالم ہے۔۔
پہلا واقعہ مجھے غزوہ احد کے میدان میں لے گیا جہاں مدینہ کی گلیوں میں جب مسلمانوں کی شہادت کی خبریں پہنچیں تو مسلمان خواتین اپنے پیاروں کی خبر لینے کو میدان احد کی طرف بے چینی کی حالت میں دوڑی چلی جارہی ہیں انہی میں ایک صحابیہ کا حال سیرت کے صفحات بیان کرتے ہیں کہ ان کو یکے بعد دیگرے تین شہادتوں کی خبر ملی والد شہید، شوہر شہید، بھائی شہید، یہ سب سن لیا انا للہ پڑھ لیا لیکن چہرہ کی بے چینی بتا رہی تھی کسی اور کی خیریت کی متمنی ہیں فرمانے لگیں کہ انہیں رسول اللہ کی خبر دی جائے کہا گیا کہ وہ خیریت سے ہیں،بے چین دل کو قرار نہیں ملا اور فرمایا”میری خواہش ہے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ حب رسول سے سرشار آنکھوں نےجب اس پیکر جودو کرم کا دیدار کرلیا تو زبان سے ادا ہونے والے الفاظ سیرت کے اوراق پہ سنہری حروف سے لکھے گئے “آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلامت ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے”۔
ایک خاتون کی محبت کا یہ کیسا دلفریب عالم ہےہر محبت ہردلعزیز رشتے سے بڑھ کر محبوب اور عزیز کوئی ہے تو وہ رسول مہربان صلى الله علیہ وسلم اور ان کی زبان سے ادا ہوئے یہ خوبصورت الفاظ رنج غم کے عالم میں مسلمانوں کے لئے بہترین پرسہ اور غم کا مداوا قرار پائے فقط یہی نہیں بلکہ پھر ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارک سے بشارت”هذا امرأة من اہل الجنۃ ” کیا خوش نصیبی سی خوش نصیبی ہے۔
اور پھر ایسا ہی ایک اورعشق و وفا کا واقعہ پیکر عشق ووفا “یار غار” صدیق اکبر کے ساتھ غار ثور میں لے گیا سفر ہجرت کے دوران جب اس غار میں پناہ لینے کا موقع آیا تو پہلے خود داخل ہوئے اس خیال سے کہ کوئی ضرر کوئی شر ان کے ہوتے ہوئے رسول اللہ کو نہ چھو جائے غار کا جائزہ لیا جگہ جگہ کھلی دراڑیں اورسوراخ پائے اس خیال سے کہ ان میں چھپے حشرات ضرر نہ پہنچا دیں کرتا چاک کیا اور سوراخوں کے منہ بند کرنے لگے کرتے کے پارچے ختم ہوگئے اور ایک سوراخ بچا اس پر اپنے پیرکا انگوٹھا لگا لیا پھر ہر طرح کا اطمینان کرنے کے بعد رسول اللہ کو اندر آنے کو کہا سفر کی تھکان سے چور وہ رحمت اللعالمین اپنے یار غار کے زانو پر سر رکھ کے آرام فرمانے لگے، حب رسول سے سرشار یہ پیکر عشق و وفا سوراخ کو اپنے پیر کے انگوٹھےسے بند کئے ہوئے تھے کہ اتنے میں سوراخ میں موجود موذی جانور ان کو ڈس لیا لیکن منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی الا یہ کہ جاں سے عزیز ہمسفر کے آرام میں کوئی خلل واقعہ ہو مگرشدت تکلیف سے آنکھوں سےآنسو بہہ نکلے پھرلعاب دہن رسول اللہ جواس تکلیف کا مداوا بنا،اور عشق ومحبت کا ایک نیا باب رقم ہوا۔
یہ کیسا حب و وفا کا عالم تھا اورکیسا مقام عشق تھاجس نے ان حستیوں کودنیا میں ہی جنتوں کی بشارتیں سنا دیں۔ ایسے ہی حب رسول صل اللہ علیہ وسلم سے سرشار دل میدان حشر میں حوض کوثر پہ نبی مہربان کا دیدار کریں گےاوران کے ہاتھوں آب کوثر سے سیراب ہونگے،جنت میں ان کے حسین ساتھ سے لطف اندوز ہونگے۔ لیکن ان واقعات کو پڑھنے کے بعد سوچتی ہوں اس قطار میں ہم کہاں ہوں گےاور اگر سوال کر لیا گیا یا محبت و عقیدت کا ثبوت مانگ لیا گیا تو کیا پیش کریں،
یہاں تومحبت و عقیدت کا دم بھرنے والوں کی رہائش گاہیں باورچی خانوں سے لے کے حمام تک ان کی بنائی مصنوعات سے سجی ہیں جو بارہا شان اقدس میں گستاخی کے مرتکب ہوئے، پہناوے چڑھاوے خوشی و غمی کی تقریبات سب میں انہی کا رنگ غالب ہے حب رسول صلى الله علیہ وسلم کا رنگ تو ان رنگوں میں کہیں گم ہوگیا کہ یہ رنگ تو خلوص کا رنگ ہے اخلاص کا رنگ یہ اسی پہ چڑھتا ہے جو ہر رنگ اتار کے خالص اسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے، یہ عقیدت و محبت کا رنگ ہے جو اس رنگ میں رنگ جائے اس کے لئے پھر ہمیشگی کی جنت اور حسین ساتھ کی خوبصورت بشارتیں ہیں۔