تاریخِ پاکستان میں دانشوروں کی سیکڑوں کیا ہزاروں یا شائد لاکھوں کتابوں میں ان گنت تعداد میں اس بات و واقعات کے تذکرے ملیں گے کہ کہیں پاکستان بننے میں کوئی کمی نہیں رہی ہوگی. مالی قربانیوں سے لے کر جانی قربانیاں دی گئیں، ذات اقدس کی اہم معشوق عزت کی قربانیاں بھی دی گئیں، تو پھر پاکستان بدلنے کی نوبت کیوں ان پڑی؟ کیا باقی ہے قربان کرنے کو؟ کیا وہ جذبہ، جنون، ہمت، طاقت، لگن، خواہش، قابلیت اب ہے؟ تو پھر کیسے اور کیوں بدلو گے پاکستان؟۔
اگر میں کہوں نظام ضروری ہے بدلنے کو. بدلو گے تو قدر پاؤ گے وگرنہ روندے جاؤ گے! تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی نظام سے ٹکر لی اس کو یا تو منظر عام سے غائب کر دیا گیا یا اس کا نصیب موت بنی. نظام میں کیا ہے اور کیوں ہے؟ میرے عزیز پاکستانیوں! کچھ اہم نقطے آپ کے پاس سوچ وچار کے لیے چھوڑے جانا چاہتا ہوں، اگر ایک آدمی سرکاری نوکری جوائن کرنا چاہتا ہے، تو وہ بجائے میرٹ کے پیسوں کے عوض وہ نوکری حاصل کرے تو وہ دی گئی رقم جس کے عوض اس نے نوکری کی کہاں سے پوری کرے گا؟ وہ کسی ناجائز کام کرنے سے انکار کیسے کر سکے گا جب کہ اس کو سرکار کی نوکری جانے کے ساتھ ساتھ اپنے دیے گئے پیسے جاتے نظر آئیں گے، یہ سرکار کے ہر شعبے ہر محکمے کے احوال ہیں. جمہوری نظام کا ڈھونگ رچانے والے سیاست دان انکے پاس تو ہر شئے کا توڑ موجود ہے، اور الف پڑھنا لکھنا آئے نہ آئے وزارتوں سے ضرور نوازا جائے گا وجہ کیا۔
ایک صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے آپ کو پچاس ہزار روپے درکار ہیں اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے ایک لاکھ روپے درکار ہیں. کون کرائے گا؟ کہاں سے لائے گا؟ پھر پورے نہیں کرے گا کیا؟ انصاف، حق، اور رحم تو بھول جائے گا. طاقت ور ہی آئے گا اور وہی کھا جائے گا، طاقت کے بل بوتے پر سب ناجائز جائز ہوتا ہے، غریب نہ آئے گا نہ ناانصافی کو بتا پائے گا نہ بدل پائے گا، جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے ایماندار سرکاری ملازمین کی اموات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ حق، سچ، ایمانداری اور دیانتداری کا انجام موت ٹھہرا ہے میرے ملکی نظام میں، کوئی ملازم منی لانڈرنگ کرتے خاتون کو پکڑے تو کچھ عرصے بعد موت، کوئی ملازم ایف آئی اے کیس کی سماعت دیکھے تو موت، کوئی ملازم ناجائز حکم کی تعمیل نہ کرے تو موت، کوئی ملازم دیانتداری دکھائے تو موت. جمہوریت کو خطرہ لاحق نہ ہو بس، بات سیاست دان کے نظام سے ٹکر لینے کی کریں تو اسکی بھی موت، نظام ہے کیا؟ کوئی جن؟ بھوت؟ یا گولی جو مار دیتی ہے، جس بھی سیاسی جماعت کے سربراہ، رہنما نے نظام سے ٹکر لی نتیجہ موت یا پھر منظر عام پر سے غائب، کوئی غدار ٹھہرا دیا، تو کوئی قاتل، کوئی کتا تو کوئی منافق، کوئی مفاد پرست تو کوئی ملک دشمن، کوئی یہودی ایجنٹ تو کوئی اسلامی دشمن، یہ نام دے کر، اس ہر نیک نیتی کے دامن کو ہٹا دیا گیا مار کر یا ہٹا کر۔
افواج پاکستان قابلِ عزت اور احترام کی حامل ہے. طاقت اور تحفظ پاکستان کی آواز ہے، کے بھی مرد مجاہد روندے گئے، شہید کروا کر یا پیٹھ پر گولیاں مروا کر، کتا کہلوا کر یا ملک دشمن کہلوا کر یا قاتل کہلوا کر، حتیٰ کہ میرے ملک کے ہر ادارے، ہر شعبے، ہر عدالت، ہر جگہ پہ نظام حاوی ہے، یہ نظام چلاتا کون پھر؟ یہ آتا کہاں سے جو سب سے تگڑا ہے؟ اسکو مات کون دے گا صرف اور صرف عوام، مل کے ساتھ چل کے فیصلہ کر کے، ایک نہیں، دو نہیں، سو نہیں، ہزار، نہیں، لاکھ نہیں، کروڑ نہیں بلکہ کروڑوں کئی کروڑوں چاہو گے تو بدلے گا نظام تب ملے گا پاکستان۔
تب چلے گا، پھلے گا پھولے گا، پاکستان.
جہالت ِظلمت ِشب سے بھی بدتر ہے کہ جاہل کا
کوئی رستہ نہیں ہوتا ، کوئی منزل نہیں ہوتی
جہالت جانی دشمن ہے ، تمدن کی ترقی کی
کہ اس بدبخت کے ہوتے بقا، حاصل نہیں ہوتی۔