اگر کوئی چیز آپ کو نظر نہیں آتی یا آپ کسی عمل کو وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے تو اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ چیز موجود نہیں ہے یا آپ کے آس پاس وہ عمل ہو ہی نہیں رہا۔ مثال کے طور پر درخت اور پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں لیکن چونکہ یہ عمل نظر نہیں آتا تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایسا کچھ آپ کے اطراف میں ہو بھی نہیں رہا۔
اب آ جائیے اصل مدعے کی طرف: پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈز پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق ہمارے پیارے ملک میں “مرد ہم جنس پرستوں” کی تعداد آٹھ لاکھ سے لے کر چالیس لاکھ کے درمیان ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا؟ کیوں بھئ؟ اگر کوئی عمل آپ کو نظر نہیں آتا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت میں ہو بھی نہیں رہا؟۔
پاکستان میں ایچ آئی وی کا انفیکشن سب سے زیادہ مرد ہم جنس پرستوں میں پھیل رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ تو بذات خود اس مکروہ عمل کا پھیلنا ہے کیونکہ کہ پورے معاشرے میں کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں اور دوسری جانب عالمی شیطانی نظام نہایت ہوشیاری کے ساتھ یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوششوں میں لگا ہوا ہے کہ یہ “نیچرل عمل” کتنے ممالک میں جائز اور معاشرتی طور پر قابل قبول ہے۔
مذہباً، قانوناً اور معاشرتی طور پر غلط ہونے کے باوجود “مردوں کے مردوں سے سیکس”
Men having sex with men
پر اس معاشرے نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں،
ذات برادری فرقے بازی کے چکر میں لڑکے لڑکیوں کی مرضی سے شادی ہم ہونے نہیں دیتے، اور گھٹن کے شکار اس معاشرے میں جب کوئی ‘وے آوٹ’ نہ ہو اور اوپر سے آپ کو کو شراب اور دیگر منشیات آسانی سے میسر ہوں تو پھر بقول کاظمی صاحب
“مرد و عورت کی تمیز ہی باقی نہیں رہتی” اور ہاں میں جو خود بھی بچوں کو “سیکس ایجوکیشن” دینے کا شدید مخالف تھا، آج کل یہ سوچ رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو کیسے بتاؤں کہ غلط جنسی رویے کیا ہوتے ہیں، کن چیزوں سے بچنا ہے اور کیسے جنسی اور نفسانی خواہشات پر قابو پاکر دنیا اور آخرت میں محفوظ اور کامیاب رہنا ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر میں اس مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے لفظ “لواطت” یا “لوطی” کا استعمال کر لوں تو بجائے اس عمل کے خلاف آواز اٹھانے کے، مجھے ہی نصیحتیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں کہ جیسے میں نے شاید کوئی بہت ہی توہین آمیز بات کر دی ہے۔
اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں، بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کوئی عمل آپ کے آس پاس ہو رہا ہے ہے اور وہ آپ کو نظر نہیں آرہا لیکن اس کے نتیجے میں کوئی بڑی تباہی آ سکتی ہے تو خدارا آنکھیں کھولیے، جستجو کیجئے اور آواز اٹھائیے۔ ایچ آئی وی آپ کے معاشرے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے ( جنگل کی آگ سمجھنے کے لئے شیرانی کے چلغوزوں کے جنگلات میں لگی آگ کا تصور کریں)
مجھے مقامی اور بین الاقوامی ماہرین کچھ عرصے سے بتا رہے ہیں کہ آپ کا حشر افریقہ کے ممالک سے بھی زیادہ برا ہونے جارہا ہے، ایک طرف جراح اور اتائی اس مرض کو پھیلا رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری منافقت ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔