کسی جنگل میں ایک سانبھا نام کا ہرن رہا کرتا تھا جو اپنے جھنڈ کا سردار تھا جنگل چونکہ زیادہ بڑا نہیں تھا اس لیے تیزی سے اپنے گروہ کی کمی ہوتی دیکھ کر ایک دن جھنڈ کے دیگر ہرنوں نے سا نبھا سے فریاد کی کہ سردار ہمیں خونخوار چیتوں سے اب آپ ہی بچا سکتے ہیں ورنہ وہ تو ہمارے تمام جھنڈ کو کھا جائیں گے سانبھا ہرن نے جھنڈ کے ہرنوں کو جواب دیا تم پریشان نا ہو پورے جنگل میں آزادانہ گھومو پھرو میں سنبھال لوں گا جھنڈ کے ہرن مطمئن ہو کر لوٹ گیے۔
کچھ دنوں بعد جب تمام ہرن ندی پر پانی پینے جمع ہوئے تو ہرنوں نے پھر سانبھا سے شکایت کی کہ سردار پچھلے چند دنوں میں چیتوں نے ہمارے دو ساتھیوں کو اپنی خوراک بنا لیا ہے ہم تعداد میں دن بدن بہت کم ہوتے جا رہے ہیں کچھ کرئیے سانبھا نے اطمینان سے غٹا غٹ پانی پیا اور بولا تم کاہے پریشان ہو میں ہوں نا! میں سنبھال لوں گا ہرن ایک دفعہ پھر مطمئن ہو کر جنگل کی اور چل دیے کچھ دن اور گزرے تو سانبھا کے سامنے صرف دو ہرن حاضر ہوۓ سانبھا بڑا حیران ہوا اور حیرت سے پوچھا آج باقی ساتھی کہاں رہ گیے وہ کیوں نہیں آئے ہرنوں نے جواب دیا کہ اب بس ہم دو ہی بچے ہیں آپ کے علاوہ باقی چیتوں کا لقمہ بن گیے آج ہم آپ کو بتانے آئے ہیں کہ ہم یہ جنگل ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہے ہیں آپ بھی ساتھ آنا چاہیں تو چلیں سانبھا نے سر کھجایا اور جذباتی لہجے میں بولا پگلو اپنا گھر بھی بھلا کوئی چھوڑتا ہے کیا؟ تمہیں یہاں کسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں ہوں نا میں سب سنبھال لوں گا یہ سنتے ہی ہرنوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور لمبی لمبی جستیں بھرتے ہوئے اس جنگل کی حدود سے باہر نکل گئے۔ اب اس جنگل میں صرف چیتے بستے ہیں۔
سابقہ دور حکومت میں جب مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کیا تو متحدہ اپوزیشن کا یہی نعرہ تھا کہ اس یزیدی حکومت سے جان چھڑائیں ہم حکومت میں آتے ہی سب سنبھال لیں گے عوام کو گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں، اگلی حکومت ہماری ہی بننے جا رہی ہے اور ہم سب سنبھال لیں گے کے نعروں نے ایسا وبال کھڑا کیا کہ عوام کی حالت اس دلدل میں پھنسے شخص کے جیسے ہو گئی ہے کہ جسے جتنا باہر نکالنے کی کوشش کریں اتنا ہی وہ اندر دھنستا چلا جاتا ہے مہنگائی کا چیتا عوام کو چن چن کر کھاتا جا رہا ہے اور حکومتی سانبھے یہی رٹ لگائے بیٹھے ہیں کہ ہم سب ٹھیک کر دیں گے۔
ہر بجٹ میں حاضر سرکاری ملازمین اور سابقہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں یا پینشنز میں تقریباً ایک جیسا اضافہ کیا جاتا ہے لیکن اس دفعہ حکومت نے پندرہ فیصد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے ان سے کافی حد تک یاری لگانے کی کوشش کی ہے اور سابقہ ملازمین جن کے سر پر دوائ دارو کا اضافی بوجھ ہوتا ہے انہیں صرف پانچ فیصد پر ٹرخا کر مالِ بے کار کی طرح کھڈے لئینے لگا دیا گیا ہے اور جس دس فیصد پینشن کے اضافے کا اطلاق ان کے لیے اپریل سے کیا گیا تھا اس کا بھی عملدرآمد مریخ پر کیا جا رہا ہے کیوں کہ زمین پر تو وہ اضافہ شدہ پینشن اب تک کسی کو مل نہیں پائی ہے ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومتی باگ ڈور انسانوں کے نہیں بلکہ سانبھوں کے ہاتھ میں ہے جو ہمیں رفتہ رفتہ ختم ہوتا دیکھ رہے ہیں اور خود بڑے اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ہم سب سنبھال لیں گے!