کسی بھی بات پہ دو نظریے اجاگر ہوتے ہیں، ایک اعتباریت اور دوسرا بے اعتباریت۔ اعتبار روح کی طرح ہوتا ہے اک بار چلا جائے تو واپس نہیں آتا، فطری طور پر یہ بات معنی رکھتی ہے کہ بھروسہ اک شخص توڑتا ہے مگر اعتبار ہر شخص پر سے اٹھ جاتا ہے، اعتبار کی بنا پر ہر رشتہ قائم ہوتا ہے اور اسی کے اٹھ جانے پر ختم ہو جاتا ہے۔ اعتبار کا تعلق خوف اور تحفظ سے بھی ہے، کیونکہ اگر بے اعتباریت ہو تو انسان خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسکا تحفظ برقرار نہیں رہتا۔
یہ بات یا معنی ان لوگوں کے لیے اہم ہیں جو دل قرب سے اس کیفیت کو محسوس کر سکتے ہیں، ہر شخص اس کو سمجھنے اور محسوس کرنے سے قاصر ہوتا ہے، کسی بھی شے پہ اعتبار ایسے ہوتا جیسے اک کورا کاغذ جو چاہو لکھ لو، وہاں صرف ایک ہی کیفیت ہوتی سب خیر ہے، لیکن اگر وہاں دراڑ آجائے اعتبار چلا جائے تو دو طرح کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
وقت حاضر سے کچھ مختلف راہنمائی ملتی ہے، جھٹکا ایک سے لگے نظریہ سب کو لے کر بن جاتا ہے۔ ڈر، وسوسہ اور خوف اپنا راستہ بنا لیتا ہے، وہی کیفیت آپ کو ہر چیز سے مخلصی چھین لیتی ہے دوغلا پن اپنی بنیاد رکھ لیتا ہے۔ بہت سے دل کے صاف اور قابلِ اعتبار لوگوں کو بھی اکثر انسان پہچان نہیں پاتا اور وہ انہیں بے اعتباریت کے جھونکے کی زد میں رگڑے جاتے ہیں۔
پھر انکے اس خلوص اور مخلصی کے دامن و دائرے میں جب بے اعتباریت کا جھٹکا لگتا ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے، چیخیں نکل جاتیں ہیں، دامن بکھر جاتا ہے اور وہ بھی انہیں ہواؤں کے رخ پرچل دیتا ہے جس میں اس کا اعتباریت کا سماں لے جایا گیا ہو۔
دن لگیں گے اعتباریت کے صحن میں آنے کو
ہر شخص کو نہ دل سے اتر جانے دو
بہت ہوں گے تیرا بن کے تیرے پاس آنے کو
تیرا ہے جو وقت چاہیے اسکو بھی تو کچھ دکھانے دو۔
لہٰذا کچھ وقت صبر سے کچھ خاص کو عام نہ سمجھ بیٹھیں، تھوڑا سا سماں دے کر دیکھ لیں اور کبھی کسی کا اعتبار نہ توڑیں، وقت کے ساتھ سب قابل ہو ہی جاتا ہے۔ دل و جان سے اپنا لو مخلصی تو سب کام سنوارے جاتے ہیں۔