گزشتہ سال ہماری ہمسایہ بچی ایف ایس سی بائیو کا پیپر دے کر آئی تو گھر آ کر ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ جب رو کر دل کا غبار ذرا کم کیا تو ماں کو بتایا کہ میرا پورے بیس نمبر کا پیپر رہ گیا ہے۔ پیپر اپنے مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ بعد شروع ہوا اور ہم سے چھین پانچ منٹ پہلے ہی لیا گیا۔ مجھے امتحانی عملہ کی ایک خاتون نے مجبور کیا کہ میں اپنے پیچھے بیٹھی لڑکی کو بھی ساتھ ساتھ پیپر حل کرواؤں۔ اس طرح بھی میرا بہت سا وقت ضائع ہوا۔ میں اپنی پوری کوشش کے باوجود نہ تو ڈائیگرام ٹھیک سے بنا سکی اور 20 نمبر کے سوالات تو مکمل طور پر چھوٹ گئے۔ میری ساری محنت ضائع چلی گئی۔ اب میرے نمبر میڈیکل کالج کے میرٹ کے مطابق نہیں بن سکتے۔
مذکورہ بچی ایک محنتی، ذمہ دار اور خوب پڑھنے والی ذہین ہے۔ پچھلے سال صرف تین کتابوں کا امتحان لیا گیا۔ نتیجے میں نمبروں کی خوب بندربانٹ کی گئی۔ کچھ کے تو پورے پورے نمبر، طلبہ وطالبات خود بھی حیران کہ اتنے نمبر کیسے آگئے؟ اور عیشہ جیسے لوگوں کے ایک کتاب میں کم نمبر آنے کی وجہ سے بغیر امتحان دی گئی کتابوں سے بھی خوب نمبر کاٹے گئے اور نمبروں کی دوڑ کے اس زمانے میں ٹوٹل صرف 865 نمبر ہی آ سکے۔ اس بچی کا سخت محنت کرنے کے باوجود میڈیکل میں جانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
اب پاکستان بھر میں میٹرک کے امتحان ہوئے ہیں۔ اس بار بھی یہی شکایات سننے کو ملیں ہیں۔ امتحانی عملہ لائق طالب علموں کو مجبور کرتا ہے کہ ان کے شفارشی بچوں کو بھی ساتھ ساتھ پیپر حل کروائیں جس میں ایک تو ان بچوں کا ذہن منتشر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک پیرا جو بہت اچھی طرح سے یاد ہوتا ہے وہ خیال بٹنے سے ذہن سے نکل جاتا ہے کیونکہ ہمارے اسکول بھی تو رٹا سسٹم چلا رہے ہیں اور دوسرا، پرچہ حل کرنے کے لیے ایک مخصوص وقت ہوتا ہے جس میں پرچہ پورا کرنا بھی بڑی ہمت کا کام ہے لیکن دوسروں کو حل کروانے میں ان کا اپنا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کا اپنا پرچہ بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔ یہ شکایت بھی بہت زیادہ سننے کو مل رہی ہے کہ عملہ پرچہ شروع تو دیر سے کرواتا ہے مگر اپنے جلدی فارغ ہونے اور اپنی آسانی کی خاطر وقت مکمل ہونے سے چند منٹ پہلے ہی بچوں سے پیپر چھین لیے جاتے ہیں۔ اس وقت اکثر بچے آخری سوال حل کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں ان بچوں کا کوئی قصور نہیں وہ تو اپنے وقت پر ہی مکمل کر رہے ہوتے ہیں مگر خسارہ تو ان بیچاروں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ حالانکہ انہی مراکز میں سفارشی بچوں کو پرچہ مکمل کرنے کے لیے اضافی وقت بھی دیتے دیکھا گیا ہے۔ عملہ انہیں خود بھی نقل کرواتا ہے۔ انہیں بوٹیاں لگانے کی مکمل اجازت ہوتی ہے۔ بلکہ نگران عملے کی طرف سے انہیں نقل بازی جلدی جلدی کرنے کی ہدایت دی جا رہی ہوتی ہے۔
یہ صرف اس سال یا پچھلے سال کی کہانی نہیں بلکہ امتحانی مراکز میں ہر سال بار بار دہرائی جانے والی کہانی ہے۔ نگران عملہ جو ہماری جیبوں سے نکلے ہوئے پیسوں سے تنخواہیں وصول کرتا ہے اور طالب علموں کے امتحانوں کی محافظت کے لئے آتا ہے وہی ہمارے تعلیمی نظام کا دشمن اور ڈکیت بن جاتا ہے۔ اگر ہم قومی اور شعوری طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بنیاد اور اکائی تعلیم ہی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس نظام کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں سفارشی بچوں کے والدین بھی اپنے بچوں پر رحم کھائیں۔ وہ رب کے سامنے ان کے بارے میں جوابدہ ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی دنیا و آخرت کی فلاح کی فکر کریں۔ انہیں تعلیم یافتہ بنائیں۔ ان کی اصلاح کریں نہ کہ خود بھی گندگی اور کرپشن کے گڑھے میں چھلانگ لگا دیں۔ اپنی دولت اور تعلقات کی بنا پر دوسرے محنتی بچوں کا حق نہ ماریں۔ جو لوگ اپنے بچوں کو کو خود بے ایمانی، چوری اور حق تلفی کی تعلیم دیتے ہیں کیونکہ نقل کرنے کے زمرے میں مذکورہ ساری صفات آتیں ہیں۔ کیا وہ بچے دنیا میں کبھی ان کے فرمابردار اور آخرت کے لئے صدقہ جاریہ بن سکتے ہیں؟ اگر شروع میں ہی ان کی رگوں میں بے ایمانی کا خون ڈال دیا جائے تو کل کو وہ کیا اپنے دین، ملک و قوم کی خدمت کریں گے؟ ایسے لوگ تو پاک دھرتی پر صرف بوجھ بن کر رہ جائیں گے۔
اس کرپشن میں دوسرا عنصر نگران عملہ ہے۔ اگر یہ لوگ نگرانی کا فریضہ ادا کر رہے ہیں تو کیا حکومت کی طرف سے انہیں اس کا الگ معاوضہ نہیں مل رہا؟۔ جب وہ اپنی محنت کی قیمت وصول کر رہے ہیں تو چند ٹکوں کے عوض اپنا ضمیر بیچ کر اللہ کے ہاں اپنا منہ کالا کیوں کروا رہے ہیں؟ میں اس سلسلے میں درس نظامی کے نظامِ امتحان کی تعریف کروں گی کہ میں نے اپنی عصری تعلیم حاصل کرنے کے دوران یہ بے ایمانی اپنی آنکھوں سے بار ہا دیکھی لیکن درس نظامی کا امتحان دیتے ہوئے کم از کم میں نے نہ تو خود ایسا کچھ دیکھا اور نہ ہی کبھی سنا۔ تعلیم دینی ہو یا عصری یہ تو انسان کا من سنوارتی ہے۔ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو اندر کی کالک کو ختم نہ کرے۔
ایک تجویز محکمہ تعلیم کے لیے بھی ہے کہ ہر امتحانی مرکز کے باہر ایک شکایات باکس ضرور لگایا جائے جس میں والدین یا طالب علم اپنی شکایات ڈال سکیں اور پھر اس باکس کے مواد تک رسائی صرف محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدیداران کی ہی ہو۔ جہاں کہیں ایسی کرپشن کی اطلاع ملے وہاں عملی طور پر توجہ دی جائے۔ بعض اوقات بچے والدین کو اپنا دکھڑا روتے ہوئے سناتے ہیں۔ والدین بھی اپنے بچوں کی محنت ضائع ہو جانے کا سن کر پریشان ہوتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے اس دلدوز حالت کی شکایت کس سے کی جائے؟ آخر کار وہ اپنا معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ وہاں تو انہیں جواب دینا ہی پڑے گا لیکن ان کے لیے اس دنیا میں بھی کڑی سزا ہونی چاہیے تاکہ یہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں کے لئے عبرت بھی بن سکیں اور ملک کا مستقبل ذہین، محنتی اور ایماندار لوگوں کے محفوظ ہاتھوں میں دیا جا سکے۔