یہ حقیقت ہے کہ والدین اولاد کے لیے ٹھنڈی چھاؤں ہیں اولاد کی زندگی میں دونوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے انکی اہمیت کا اندازہ ان سے پوچھیں جو ان دونوں یا ایک سے محروم ہو یہ وہ سائبان ہیں جو خود تکلیف میں رہ کر صرف اولاد کے لیے جیتےہیں اولاد کے لیے تڑپنے والے یہ ہستیاں رب العزت کی طرف سے ایک بہت بڑا تحفہ اور نعمت ہیں جسکا کوئی نعمل ٻڌل نہیں اسی لیے میرے اللہ نے ان کے حقوق کی پاسداری کا سختی سے حکم فرمایا ہے۔ والدین کو ناراض کرنا اللہ کی ناراضگی ہے والدین کو خوش رکھنا رب کو راضی رکھنا ہے میرا یہ تجزیہ ہے کہ والدین کے بغیر گھر ویران ہو جاتے ہیں ا ن کےمرنےکے بعد بھی انکے لئے دعائیں مانگنا اولاد کا فرض ہے۔
الحمد للہ ہم میں سے اکثر والدین کی اہمیت و فضیلت سے واقف ہیں اس لئے وہ والدین کی خدمت و فرمابرداری میں کوئی کوتاہی نہیں برتتے بلکہ اپنی اولاد کو بھی احترام کرنے کی تلقین فرماتے ہیں اور انکے دلوں میں انکی اہمیت کو واضح کرتے ہیں اسی تعلیم وتربیت کی وجہ سے آگے چل کر وہ اولاد اپنے والدین کو عزت و احترام دیتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو اپنے بزرگوں کے قریب رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، بابا کی والدہ پانچ سال کی عمر میں انہیں اس دنیا میں چھوڑ کر اگلے سفر پر روانہ ہوئیں پانچ سال کے بچے کے ذہن میں کیا یادیں ہونگیں لیکن بابا دادی کے چند یاد گار جملوں کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان جملوں کو بارہاں ہم سے شیئر کرتے رہتے جس کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں بھی غائبانہ طور پر نہ صرف دادی کے لیے پیار و محبت اجاگر ہوا بلکہ ہم آج تک انہیں اپنی دعاوں میں یاد رکھے ہوئے ہیں اس سلسلے میں اماں کا بھی بڑا ہاتھ تھا دادا کو وہ خود عزت و احترام سے نوازتیں بلکہ اکثر و بیشتر کہتیں کہ اس گھر میں اس بزرگ کی وجہ سے برکت ہے۔
اماں نے گرچہ ہماری دادی کو نہیں دیکھا تھا لیکن وہ ہمارے دلوں میں انکی محبت اجاگر کرتی رہتیں اکثر کہتیں کہ ماشاء اللہ آپکی دادی پڑھی لکھی اور ایک قابل استانی تھیں آج وہ اپنی پڑھی لکھی پوتیوں کو دیکھتیں تو مجھ سے بھی زیادہ خوشی محسوس کرتیں اماں بابا کے اس مثبت سوچ وعمل سے ہم اپنے ان رشتوں کی اہمیت سے واقف ہوتے گئے۔ ایک اور اہم بات کا میں یہاں تذکرہ کرنا ضروری سمجھتی ہوں وہ یہ ہے کہ ان معتبر بزرگوں کی موجودگی میں اور رہنمائی میں والدین اپنی اولاد کی بھی صحیح خطوط پر تربیت کر سکتے ہیں، میری اس بات کی تائید وہ ہی کرسکتے ہیں جن خو ش نصيبوں کو مثبت سوچ وعمل والے مشترکہ خاندان میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے افہام و تفہیم اور بردباری سے بزرگ گھروں میں رونق بخشتے ہیں اور خوشحال گھرانے کے استحکام کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔
الحمد للہ ہمارا معاشرہ ابھی تک اولڈ ہاوسز جیسے فتنوں سے کافی حد تک محفوظ ہے جسکی وجہ یہی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین اور اپنے بزرگوں کی اہمیت و فضیلت سے واقفیت ہیں میں نے اپنے آس پاس چند ایسے خاندانوں کو سخت پریشانی و اذیت میں مبتلا دیکھا ہے جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے ان دعاووں کے دروازوں کو بندکردیا ہے، میرے رب نے ایسے ہی یہ نہیں کہا کہ والدین پر تو ایک محبت کی نظر ڈالنے سے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے۔ لہٰذا خوش نصیب ہے وہ جسے روز صبح اٹھ کر بوڑھے والدین پر ایک محبت بھری نظر ڈالنے کی سعادت حاصل ہو۔ سبحان الله !