امی! آپ ہم سے کیا روٹھیں ہم سے تو زمانہ ہی سچ مچ روٹھ گیا، دنیا ہم سے منہ پھیر گئی، سبھی اپنے پرائے رخ موڑ گئے، کچھ بھی تو اب اپنا نہیں لگتا ،یہ گھر، یہ رشتے اور یہ رنگینیاں، امی آپ کے بغیر تو اب یہ عیدیں بھی پھیکی پھیکی سی ہیں، امی اب ہم وہ خوشیاں کہاں سے لائیں ؟، امی وہ محبتیں کس سے سمیٹیں؟، امی کون ہوگا ہمارا آپ کے سوا اب؟، اب تو آپ اپنے دکھوں اور تکلیفوں سے نجات پاگئیں، امی آپ نے تو اب غموں سے چھٹکارا حاصل کرلیا، آپ کو پتا ہے نا اب کبھی بھی آپ کو کہیں درد نہیں ہوگا، آپ کو اب کسی قسم کی مشقت نہیں ہوگی، آپ کو اب کوئی تکلیف نہیں ہوگی، اب آپ ہر دکھ سے راحت پاچکی ہیں، اب آپ آرام ہی آرام کریں گی۔
لیکن ہم کہاں جائیں کس کو اپنے دکھڑے سنائیں، اب ہم کس کے کاندھوں پہ سر رکھ کر اپنے غم غلط کریں گے، امی اب کس کی گود میں سر رکھ کر سوئیں گے، اور اب کون ہمارے بالوں میں ہاتھ پھیر کر ہماری سسکیاں سنبھالے گا اور اب ہمارے زخموں پہ مرہم کون رکھے گا، اب ہمارے چھلکتے آنسو کون پونچھے گا، اب بھلا کرب میں ہمیں تسلیاں کون دے گا، ہماری پریشانیوں میں کون ہمیں دلاسے دے گا، اب ہماری فکر کون کرے گا اور سفر پہ جانے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ کر ہم پر دم کون کرے گا؟ اور کون ہمیں بار بار فون کرے گا اور ہماری گھر واپسی کی راہیں تکتا رہے گا۔
امی آپ تو قبر کی پاتال میں اتر گئیں، آپ تو منوں مٹی تلے جا سوئیں، آپ تو جنت کے باغوں میں محو آرام ہوگئیں، امی آپ نے ہم چار بہن بھائیوں کو کتنی مشقتوں سے دین پڑھایا، ہماری مدرسہ روانگی کے وقت ہمیں مسکرا کر الوداع کیا، جب کہ خود تنہا بیٹھ کر ہماری جدائی میں بلک بلک روتی رہیں، امی بھلے ہم ساٹھ کلومیٹر دور مدرسے میں تھے یا پھر پندرہ کلومیٹر قریب مدرسے میں طلب علم میں مگن مگر آپ نے ہمیشہ گرمی سردی کی پروا کیے بغیر بڑے اہتمام سے ناشتہ بھیجا، خود روکھی سوکھی کھا کر بھی ہماری ضروریات کا پورا خیال رکھا، لیکن ہماری دینی تعلیم میں مکمل معاونت کرتی رہیں۔
کتنا شوق تھا آپ کو کہ میرے بیٹیاں بیٹے عالم بنیں حافظ بنیں، الحمدللہ تقریباً 3 بچے حافظ و قرب حافظ بنے، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا نے وفاق المدارس سے سند فراغت حاصل کرکے آپ کے شوق کی آبیاری کی، جب بیٹے نے سر پہ دستاری فضیلت اور بیٹیوں نے ردائے فضیلت سر پہ سجائی آپ نے کس قدر اہتمام کروایا، اور کس قدر ماتھا چوما تھا آپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک پڑے تھے۔
امی آپ کو کتنی سعادتیں نصیب ہوئیں، ملک کے جید اور مستند علماء و مشائخ آپ کے مشہور دستر خواں سے روحانی کھانے کی برکات سے مستفید ہوتے رہے، کتنے بڑے بڑے شیوخ الحدیث فرمائشی کھانے آپ سے بنوا کر کھاتے رہے، یہ ساری نسبتیں بھلا کیا کم ہیں ؟، اور کون کون سی سعادتیں بتاؤں، امی باوجود اس کے کہ ہم اتنے زیادہ لوگوں کو آپ کی وفات کی اطلاع بھی نہ دے پائے لیکن پھر بھی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی لوگوں کو چلتی سڑک پر صف بندی کرنا پڑی اور راہ چلتی ٹریفک کو آپ کے جنازہ کی چار تکبروں کی وجہ سے رکنا پڑا، ہائے کتنا بڑا اژدھام ایک ستر سالہ صاحب کو کہنا پڑا کہ اس شہر میں میری زندگی کا یہ پہلا اتنا بڑا جنازہ ہے، امی آپ کے جنازہ میں علماء کا ایک جم غفیر آگیا تھا، حفاظ تھے قراء تھے نمازی تھے نیک اور صالح لوگ تھے، آپ کے جنازہ میں اسی فیصد تو فقط روزہ دار شریک تھے، امی شہر کا شہر امڈ آیا تھا آپ کے جنازے میں، امی اپنے پرائے سبھی آگئے تھے، حتی کہ آپ کا لاڈلا بھائی بھی اعتکاف سے رخصت لے کر آگیا تھا، اور کون کون سی سعادتیں بتاؤں۔
چار بجے تو آپ کا جنازہ تھا نا،آپ کو لحد میں اترنے کی اتنی جلدی تھی کہ صرف چالیس منٹ میں آپ کو مرقد میں دفنا کر سبھی لوگ واپسی لوٹ چکے تھے، آپ نے تو کسی کا بھی احسان مول ہی نہیں لیا، اللہ پاک نے اپنے غیب سے آپ کی وفات سے لے کر تعزیت کے اختتام تک مسلسل ہماری مدد کی، آپ جاتے جاتے بھی کسی پہ بوجھ نہیں بنیں، اور بنتی ہی کیوں امی، آپ نے ساری زندگی باوجود غربت کے شاہانہ انداز میں بسر کی لیکن اپنی عزت اور وقار کا اس قدر بھرم تھا کہ دشمن بھی گواہی کے لیے لپک پڑے، امی آپ نے قرآن مجید سے صرف آٹھ سال کی عمر میں تعلق جوڑا تھا نا،اور چالیس سال تک وابستگی رہی اسی کلام اللہ سے دوستی رکھی
آپ نے عمر بھی تو کتنی پائی فقط زندگی کی باون بہاریں،امی آپ نے سیکڑوں بچیوں کے گلے میں قرآن کی مالا پہنائی اور ان کے تلفظ اور حسن صوت سبحان اللہ، امی ہمارے شہر کی ایک برادری جس کے بچوں اور بچیوں کے سامنے بڑے بڑے قراء اور استانیوں نے ہاتھ باندھ لیے، اور انہیں پڑھانے سے بےبسی کا اظہار کیا اور اس کے علاوہ جامعہ کی نالائق ترین اور نکمی ترین بچیاں جو مشہور ہوتیں، وہی بچیاں جب آپ کی درس گاہ میں پہنچیں تو دنیا کی کامیاب ترین طالبات ٹھہریں، بڑے بڑے مدارس آپ کی طالبات کا قرآن سن کر رشک کیا کرتے تھے، امی آپ نے تو ساری زندگی علماء اولیاء صلحاء اور طلباء کی خدمت کی، انہیں اپنے ہاتھوں سے بنے کھانوں کی لذت سے آشنائی کروائی، امی آپ نے تو کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا تھا، آپ نے کسی کو کبھی گالی نہ دی، کسی کو کبھی منہ پہ شرمندہ نہ کیا، ہمیشہ امیر اور غریب کو برابر عزت دی، کبھی بھی امیروں اور غریبوں میں فرق نہ کیا، آپ کے در پہ جو بھی عورت آئی ہمیشہ محبت اور عزت پا کر گئی اور وہ آپ کی گرویدہ ہوگئی۔
امی آپ کس مٹی کی بنی تھیں، آپ نے دکھوں اور غموں کے پہاڑ کے سامنے ہمت جرآت استقامت کے ساتھ کھڑے رہ کر مقابلہ کیا، آپ نے کئی صدمات جھیلنے کے باوجود بھی چہرے کی مسکراہٹ نہیں چھوڑی، آپ نے پوری زندگی صبر صبر اور صرف صبر میں گزار دی، امی آپ کے اخلاق کی گواہی آج پورا شہر دے رہا ہے، امی آپ کی محبتوں کی کہانیاں آج زبان زد عام ہیں، امی آپ کی گرویدہ ہزاروں خواتین آج آپ کو یاد کرکر کے بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی ہیں، آپ کی سیکڑوں شاگردائیں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہیں۔
امی آپ کی طالبات جہاں جہاں بھی بستی تھیں وہ آج جب گھر پہنچیں تو آپ کو گھر میں چارپائی پر بےبس پاکر چیخیں چلائیں اور زار و قطار روئیں، انہیں بس دلاسے ہی دلاسے دلائے گئے انہیں صرف صبر کا دامن ہی تھامنے کی تلقین کی گئی، امی آپ کی خاطر خاندان تو کجا برادری کا کوئی گھر بھی پیچھے نہ رہا، بلکہ دشمن دوست سبھی بےدھڑک دوڑے چلے آئے، امی آپ کے بھائی بہنیں اولاد سب پاس ہیں ذرا آنکھیں کھول کر ایک نظر دیکھیں نا، امی آپ کے آخری دیدار کو کتنی پاکیزہ خواتین مچل رہی ہیں، کتنی پاک دامن ہستیاں فقط ایک جھلک دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔
امی اب ہم کس کو اپنا حال دل سنائیں، کس کے سامنے اپنے غموں کی پٹاری کھولیں، کس کے کندھوں پہ سر رکھ کر غم ہلکا کریں، اب تو بس تماشا دیکھنے والے ہی ہیں، اور ہم پر طنز کرنے والے ہیں، اور ہم پہ ہنسنے والے ہیں، اور ہمیں بےبس دیکھ کر مسکرانے والے ہیں، امی کیا کیا بتاؤں، بس پہلے قبرستان میں جاتے ہوئے ڈر سا لگتا تھا، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ میرے جسم کا کوئی حصہ وہاں مدفون ہے، میرا ذاتی ایک ٹھکانہ وہاں بن گیا ہے اگر چہ آنا ہم سب نے وہاں ہے، اب میں آپ کی قدم بوسی کے لیے روز روز آنے کی کوشش کروں گا، آپ کی قبر پہ فاتحہ خوانی کرنے آؤں گا ان شاءاللہ۔
اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے
اپنے ٹوٹے پھوٹے اعمال سے
آپ کو ہمیشہ راحت پہنچانے کی کوشش کروں گا، میرے بس میں جو ممکن ہوگا سب کروں گا، باقی مجھے رب العالمین سے قوی امید ہے کہ آپ کی دین اسلام سے سچی محبت، آپ کا قرآن سے انوکھا عشق، آپ کا علماء سے بےلوث پیار، آپ کا قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ سیکھنے کی موت تک تمنا اور آپ کا حجازی لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنا، آپ کا ہمیشہ نمازوں کا اہتمام کرنا بالخصوص تہجد کی لگن رکھنا،اور پابندی کے ساتھ روزے رکھنا، آپ کی روضہ اقدس کی حاضری کی تڑپ، آپ کی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ الفت و عقیدت، یہ سب کچھ اور پھر رمضان المبارک جیسا مقدس مہینہ، اور آخری نزول قرآن والا عشرہ اور امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یوم شہادت، اور کلمہ کی تلقین پہ ہونٹ اور زبان ہلاتے ہلاتے لبوں پہ تبسم سجائے اس دار فانی سے کوچ کر جانا ہی بتاتا ہے کہ آپ کی قبر اس حدیث کا مصداق بن گئی۔
القبر روضۃ من ریاض الجنہ
بس یہی سوچ دل کے غنچے کھلا دیتی ہے اور ہمیں چین کی نیند سلا دیتی ہے، بس امی آپ رمضان المبارک میں میرے رب کی مہمانی میں چلی گئی ہیں اور رب العالمین خود ہی تیرا میزبان ہے وہ جانتا ہے اپنے مہمانوں کے ساتھ کیا رکھ رکھاؤ کیا جاتا ہے۔
الوداع امی جان اور فی امان الل